بابائے قوم مہاتما گاندھی نے کہا کہ اگر کسی کے طاقت کی پیمائش کرنے کا پیمانہ صرف اخلاقی طاقت ہے تواس بات میں شبہ کی کوئی گنجائش نہیں ہے کہ عورتیں مردوں کے مقابلے میں ایک اعلیٰ مقام پر فائز ہیں۔اس لئے یہ بالکل مناسب نہیں ہے کہ عورتوں کوکمزور سمجھا جائے۔
بھارتی فوج میں خواتین افسران کو مستقل کیمشن کے لیے اہل قرار دیے جانےوالے سپریم کورٹ کےفیصلے کو بھارتی فوج میں جنسی برابری کی طرف ایک بڑا قدم سمجھا جاسکتا ہے
بہت سے شعبوں میں بھارتی فوج کا 'مستقل کمیشن' اس مرد غلبہ والے معاشرے کی مردانگی کے لیے ایک بہت بڑا چیلنج ثابت ہوا ہے۔عدلیہ اور فوجی فورسز کے درمیان صنفی تفریق و استحصال سے متعلق جاری قانونی جنگ اب ختم ہوگئی ہے اور مرکزی حکومت کے پاس صرف ایک راستہ باقی رہ گیا ہے کہ وہ جنگی ڈیوٹی میں خواتین افسر کو بھی شامل کریں۔
سپریم کورٹ نے مرکز کے ان دعووں کو مسترد کر دیا ہے کہ فوج میں زیادہ تر نوجوان دیہی علاقوں سے تعلق رکھتے ہیں اور خواتین افسران کو بطور کمانڈ کی حیثیت میں قبول کرنے کے ضمن میں یہ نوجوان ذہنی طور پر تیار نہیں ہیں اور اس بات سے بھی انکار کیا کہ خواتین افسران فطری طور پر غیر معمولی رکاوٹوں اور گھریلو ذمہ داریوں کی وجہ سے فوجی خدمات کے حوالے ہونے والے چیلینجوں پر قابونہیں پا سکتی ہیں ۔
عدلیہ نے فروری میں مرکزی حکومت کے فیصلے کو برقرار رکھا ہے، جس میں فوج کے دس ڈیوژنوں میں شارٹ سرویز کمیشن خواتین افسران کو فل ٹائم کمیشن دینے کا فیصلہ کیا تھا اور ساتھ میں عدلیہ نے یہ بھی کہا کہ اس طرح کا نرم اطلاق تمام محکموں اور مختلف ممالک میں تعینات خواتین افسران پر بھی ہونا چاہئے۔
اسرائیل میں خواتین فوجی سنہ 1995کے بعدوسیع تر جنگی کاروایئوں میں مصروفِ عمل ہیں جبکہ جرمنی میں سنہ 2001سے اور برطانیہ میں سنہ 2018کے بعد سے خواتین فوجی جنگی سرگرمیوں میں حصہ لے رہی ہیں۔
سپریم کورٹ کے دو رکنی بینچ نے کہا کہ خواتین کو کمانڈ کی ذمہ داری دینے کے لیے ان کی صلاحیتوں کو محض ان کے صنف کی بنیاد پر پرکھنا غلط ہے بلکہ اْن کی انفرادی صلاحیتوں اور قابلیت کو مد نظر کر اْن کو یہ ذمہ داری دینی چاہئے، جو آیئنی اصولوں میں درج شرائط کے عین مطابق ہے۔
سپریم کورٹ کا یہ حالیہ فیصلہ آئندہ بھارتی فوج میں در پیش چیلینجوں کا مقابلہ کرنے کے لئے مشعل اور رہنمائی کا کام کرے گا ۔
جون 2017میں جنرل بپن راوت نے بھارتی فوج کے کمانڈر اِ ن چیف کی حیثیت سے اعلان کیا کہ وہ بھارتی فوج میں آئندہ وقت میں ایسی فوج بنائیں گے جہاں خواتین کے لیے بھی اتنے مواقع میسر ہوں گے جتنے مردوں کو ہیں۔
ابتدا میں خواتین کو فوجی پولیس کے طور پر بھرتی کیا جاتا تھا اور بعد میں اْنہیں مارشل آرٹس میں تربیت دی جانے لگی۔سنہ 2018 میں اس وقت کی وزیر دفاع نرملا سیتا رمن نے کہا کہ وہ فوج کی تینوں شاخوں میں خواتین کی بھرتی کے لئے ایک متفقہ پالیسی پر کام کر رہی ہیں۔اْنہوں نے اس بات کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ خواتین فضایئہ میں پائلٹ کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہی ہیں لیکن بحریہ میں اْن کے لئے وہ ماحول میسر نہیں ہے جہاں وہ پر اعتماد کے ساتھ جنگی سرگرمیوں میں حصہ لے سکیں۔
یہ کہنے کی ضرورت نہیں ہے کہ بھارت دنیا کی دوسری سب سے بڑی فوجی طاقت ہے، جس کی شناخت اپنی خود افادیت کو مزید بہتر بنانے سے ہوتی ہے۔1950 ایکٹ نے مرکز کی طرف سے جاری کردہ نوٹیفیکیشن کے تحت چند مخصوص علاقوں کو چھوڑ کر خواتین کو فوج میں بھرتی کے حوالے سے تقریباً چار دہایوں تک نا اہل رکھا ۔
مرکز جس نے خواتین کو پہلی بار سنہ 1992 میں پہلی بار پانچ زمروں میں بھرتی کی راہ ہموار کی تھی، وہیں سنہ 2010 سے خواتین کو فوج میں مکمل کمیشن دینے کے لئے دہلی کی عدالت عالیہ میں دس سال تک مقدمہ چلتا رہا۔اس تنازعہ کا اب سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے سے خاتمہ ہو چکا ہے اور اگلے سال مارچ میں ایک سو خواتین کا پہلا گروپ تربیت مکمل کر کے فوجی پولیس میں شامل ہوجائے گا۔
یہ ضروری ہے کہ خواتین کو مناسب تربیت فراہم کی جائے اور اْن میں وقتی جنگی ضرورتوں کے لئے انفرادی صلاحیتوں کواجاگر کیا جائے اور اس کے ساتھ ساتھ فوجی اصلاحات کے ذریعے ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے ویسے ہی برابر کے مواقع پیدا کئے جائیں جو مردوں کو حاصل ہیں۔
لگ بھگ 20 سال قبل سبرامنیم کمیٹی نے وزارتِ دفاع کے لئے چیف ایڈوائزر کے عہدے کی تشکیل اور تعیناتی کی سفارش کی، جو انفنٹری، بحری اور ہوائی فوج کی تینوں شاخوں کے لئے واحد اور اولین اتھارٹی کے طور پر بھی کام کر سکے۔یہ مشق حال ہی میں جنرل بپن راوت کی اس عہدے پر تعیناتی کے ساتھ مکمل ہو چکی ہے ۔
اگرچہ مرکزی بجٹ کا بہت بڑا حصہ دفاعی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے مختص ہو تا ہے جو تقریباً 3.37کروڑ ہے۔ تاہم جدید جنگی صلاحیت حاصل کرنے کے حوالے سے پیش رفت سست ہوئی ہے۔جنرل بپن راوت نے حال ہی میں اگلے سال سے امریکہ کے گیارہویں جنگی کمانڈ اور چین کے 5تھیٹر کمانڈ کی طرز پر جنگی ہتھکنڈوں کو تیز کرنے کی تجویز پیش کی ہے۔
اس ہدایات پر عمل کرتے ہوئے سال 2022 تک مسلح افواج کی تینوں شاخوں کے وسائل کو ملا کرایک بڑے نظام کے تشکیل کی امید ہے۔مْختصراً جیسا کہ وزیر اعظم نریندر مودی نے دسمبر2015میں زور دیاتھاکہ دفاعی شعبے کو ایک قلیل مدت میں فوجی کمان کے حوالے سے اپنے اعتقادات، پالیسیوں ، مقاصد اور حکمتِ عملی کو اعتدال پسند انداز میں تبدیل کرنا ہوگا۔
اگر چین جیسا ملک جو اپنے افواج کی انفرادی قوت کو کم کر کے انہیں تنکنیکی طور پر مضبوط کر رہے ہیں تو ایسے میں بھارت کی سوچ دونوں نقاط کے حوالے سے قومی سلامتی کو نقصان پہنچا رہی ہے۔جہاں فوجی بجٹ کا 83فیصد حصہ فوجیوں کی تنخواہوں پر خرچ ہوتا ہے وہیں جدید کاری کے لئے صرف 17فیصد ہی بچ جاتا ہے۔
اب سوال باقی رہ جاتا ہے کہ کیا جدیدیت کے مقاصد دسمبر کے اواخر تک حاصل ہو جائیں گے جب ملک سے باہر تعینات 57 ہزار فوجی وطن واپس آجائینگے۔مندرجہ بالا کی طرف روشنی ڈالیں جیسا کہ سپریم کورٹ نے بھی کہا ہے کہ اب وقت آگیا ہے کہ قوم کے دقیانوسی تصورات کو تبدیل کی جائے۔