مرکزی وزیر مختار عباس نقوی کو دیے گئے میمورنڈم میں ادارہ شرعیہ جھارکھنڈ نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ ملک بھر میں ملکی امن کو نقصان پہنچانے والے افراد کے خلاف سخت سے سخت سے کارروائی کیا جائے۔
ادارہ شرعیہ جھارکھنڈ کے وفد نے مرکزی وزیر سے کہا کہ نفرت کا زہر پھیلانے والوں پر کارروائی ہونی اور ایودھیا کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلے کے ماقبل یامابعد ہر حال میں مرکزی اور ریاستی حکومتوں کی ترجیحی ذمہ داری ہے کہ وہ امن، بھائی چارہ اور قومی یکجہتی کو بانئے رکھنے میں مخلصانہ عملی اقدام کریں۔
ادارہ شرعیہ نے کہا ہے کہ گرچہ ہمارے اصل موقف کے مطابق کسی مسلمان کویہ حق نہیں کہ وہ مسجد تبدیل کرے چونکہ وہ اللہ کی ملکیت ہے اور صبح قیامت تک مسجد کے ہی حکم میں رہے گی تاہم صرف اور صرف بابری مسجد-رام جنم بھومی معاملہ میں عدالت عظمی کا جو بھی فیصلہ آئیگا، مسلمان اسے تسلیم کرینگے۔
ادارہ شرعیہ نے کہا کہ بھارت کے تمام طبقوں کو چاہیئے کہ مسلمانوں کی طرح وہ بھی سپریم کورٹ کے فیصلے کااحترام کریں اور گنگا جمنی تہذیب کو برقرار رکھیں۔
وفد نے یہ بھی کہا کہ 'ملک میں چند ہی افراد ہیں جو یہاں کے امن وسکون کے تانہ بانہ کو تارتار کررہے ہیں اور وہ یہ سمجھتے ہیں ہماری سرپرستی حکومت کررہی ہے اور ہمارا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا، لہذا حکومت کو ایسے عناصر پر بھی گہری نظررکھنے کی ضرورت ہے۔
ادارہ شرعیہ کے وفد نے مزید دوچند سجھاؤ بھی دیئے ہیں ان میں مندرجہ ذیل ہیں:
امن، ہم آہنگی اور سماجی تانے بانے کو مظبوط کرنے کے لیے اقدامات کیے جائیں۔
ہمارے ملک کی معاشرتی تانے بانے کو مضبوط بنانا سب سے اہم کام ہیں کیونکہ یہ تانے بانے ریشم کے دھاگے سے پتلا ہے لیکن کسی بھی اسٹیل کی شہتیر سے زیادہ مضبوط ہے۔
برادریوں کی جدوجہد اور ترقی کی منازل اس وقت طے ہوتی ہے جب کسی فرد کو باہمی انحصار اور مشترکہ وسائل کے اشتراک پر بنائے گئے گروپ کا حصہ بننے کے بارے میں احساس ہوتا ہے۔ آج کی تیز رفتار مواصلات کی دنیا میں میڈیا کے منفی اثرات کو سمجھنا ضروری ہے کہ اس کی غلط نمائش بھی ہوسکتی ہے۔ مثال کے طور پر، حالیہ دنوں میں میڈیا اور سوشل میڈیا کو ہمارے معاشرے کو مذہب ، ذات پات اور قد و قامت کی بنیاد پر تقسیم کرنے کے لئے استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ اس طرح کی بدنامی کمیونٹیز کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا رہی ہے۔ تاہم ہمارے پیارے ملک کے معاشرتی تانے بانے کو مضبوط بنانے میں حکومت کا بہت بڑا کردار ہوناچاہیئے۔
لہذا بابری مسجد قضیہ پرآنے والا فیصلہ کے تناظر میں ہم تجویز کرتے ہیں کہ امن ، ہم آہنگی کو فروغ دینے اور معاشرتی تانے بانے کو مضبوط بنانے کے لیے درج ذیل اقدامات کیے جانے چاہئیں: