مظفر حنفی نے تعزیتی بیان میں کہا کہ 'مجتبیٰ حسین کی وفات اردو کا بہت بڑا نقصان ہے جو کبھی بھرا نہیں جا سکتا، اس نازک وقت میں جب لوگ خدمات اور پڑھنے لکھنے سے دور ہوتے جا رہے ہیں مجتبیٰ حسین کا اس دنیا سے رخصت ہونا میرا ذاتی نقصان ہے۔
مظفر حنفی نے اپنی مجتبیٰ حسین کے ساتھ اپنی دوستی کو یاد کرتے ہوئے کہاکہ 'مجتبیٰ سے میری دوستی 50 برس سے بھی پہلے کی ہے میں جب بھوپال میں تھا تب مجتبیٰ حسین پر ان کی فرمائش پر ایک خاکہ لکھا تھا۔
انہوں نے کہا کہ مجتبیٰ حسین بحیثیت خاکہ نگار بعد میں ہم دونوں سنہ 1974 میں این سی آر ٹی آ گئے اور اردو کی داغ بیل ڈالی، اردو کی درسی کتابوں کا بندوبست کیا یہ ایک طویل کہانی ہے جو پھر کبھی اس وقت اس طرح کی باتیں نہیں تھیں جس طرح آج کل درسی کتابوں کی اشاعت میں ہو رہی ہیں۔
پروفیسر حنفی نے کہا کہ 'مجتبیٰ حسین سے تعلقات کی نوعیت گھریلو تھی وہ مالویہ نگر میں اور میں این سی آر ٹی میں رہتے تھے مجتبیٰ حسین نے بہت لوگوں پر خاکے لکھے اور خوب ہنسایا اور اب سب کو رُلا کر چلے گئے۔
انہوں نے کہا کہ مجتبیٰ حسین کے بہت سے واقعات میری کتاب 'گفتگو دو بہ دو' میں شامل ہیں، مجتبیٰ سے آخری ملاقات میں حیدرآباد کے ایک مشاعرے میں ہوئی دن بھر ساتھ رہے پھر پچھلے ہفتے ہی ان کا فون آیا تھا میری طبیعت کا سن کر افسوس کر رہے تھے، اللہ انکی مغفرت فرمائے، بڑا آزاد مرد تھا۔
انجینیئر، ادیب اور سماجی کارکن فیروز مظفر نے بھی رنج و غم کا اظہار کرتے ہوئے مجتبٰی حسین کو یاد کرتے ہوئے کہا کہ 'جاپان چلو جاپان چلو' کہتے کہتے وہ آسمان پر چلے گئے۔
انہوں نے کہا 'مجتبی' حسین کے بعد طنز و مزاح کا باب بند ہوا، اب تو پھوہڑ باتوں اور گندے واقعات کو لوگ طنز و مزاح اور انشائیہ کہتے ہیں، اسرار جامعی کا غم کیا کم تھا جو مجتبیٰ حسین بھی چلے گے اللہ انکی مغفرت فرمائے اور ان کے درجات بلند کرے۔