ایک ایسے وقت میں جب کووِڈ 19 کی وجہ سے بھارت شدید طبی اور معاشی بحران سے دوچار ہوگیا ہے، بعض ریاستی حکومتیں مزدوروں کے حقوق چھین رہی ہیں۔ اُتر پردیش، مدھیہ پردیش اور گجرات جیسی ریاستوں نے مزدوروں سے متعلق قوانین کو معطل کرنے کا اعلان کیا ہے۔ ان ’اصلاحات‘ کا مقصد کارخانوں کے مالکان، اداروں اور تاجروں کو سرمایہ کاری کی طرف راغب کرنے کے لئے انہیں مزدوروں کے حقوق سے متعلق قوانین سے چھٹکارا دلانا ہے۔ چھینے جارہے یہ حقوق مزدوروں کی اجرتوں اور اُنہیں کام کا بہتر ماحول فراہم کرنے سے متعلق ہیں۔ راجھستان، پنجاب، ہریانہ اور اتراکھنڈ جیسی ریاستوں نے بھی مزدوروں کے طے شدہ اوقات کار میں اضافہ کرتے ہوئے کچھ حد تک قواعد و ضوابط میں تبدیلی لائی ہے۔ ممکن ہے کہ مزید کئی ریاستیں بھی ایسا ہی کریں گی۔
مزدوروں سے متعلق قوانین میں سب سے زیادہ تبدیلیاں اترپردیش میں کی گئیں۔ یوگی آدتیہ ناتھ کی سربراہی والی بی جے پی سرکار نے ریاست میں نافذ مزدوروں سے متعلق قوانین کو تین سال کے لئے معطل کردیا ہے۔ اس ریاست میں صرف بلڈنگ اینڈ کنسٹرکشن ورکرز ایکٹ 1996ء، دی ورک مین کمپنسیشن ایکٹ 1923ء، بانڈڈ لیبرسسٹم (ابالشن) ایکٹ 1976ء اورپیمنٹ آف ویجز ایکٹ 1936ء کو چھوڑ کر باقی سارے اہم قوانین معطل کردئے گئے ہیں۔ مزدوروں کے حقوق سے متعلق جو قوانین معطل کئے گئے ہیں، اُن میں منیمم ویجز ایکٹ 1948ء، انڈسٹریل ڈسپیوٹ ایکٹ1947ء، فیکٹریز ایکٹ1948ء اوردیگر تیس متعلقہ قوانین شامل ہیں۔
اترپردیش سرکار کے اس اقدام کے بعد مدھیہ پردیش اور گجرات جیسی ریاستوں نے بھی مزدوروں سے متعلق قوانین کو التوا میں رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ان حکومتی فیصلوں کے نتیجے میں تاجروں اور صنعت کاروں کو اب اپنی مرضی سے مزدوروں کو کام پر رکھنے یا نکالنے کا اختیار حاصل ہوگیا ہے۔ اس کے علاوہ نئے قائم شدہ اداروں کو مزدوروں کو تحفظ اور طبی سہولیات فراہم کرنے کی قانونی مجبوریوں سے بھی چھٹکارا مل گیا ہے۔ جبکہ کارخانوں میں مزدوروں کے اوقات کار میں اضافہ کرنے کی راہ بھی ہموار ہوگئی ہے۔
راجستھان، پنجاب، ہریانہ، ہماچل پردیش اور اُترا کھنڈ جیسی ریاستوں نے بھی آٹھ گھٹوں کے مقررہ اوقات کار کو بڑھا کر بارہ گھنٹے کردیا ہے۔ تاہم مالکان کو مزدوروں کے کام کے لئے اُنہیں اضافی اجرتیں دینی پڑیں گی۔ مختلف ریاستوں میں لیبر قوانین میں لائی گئیں اِن تبدیلیوں اور اتر پردیش اور مدھیہ پردیش جیسی ریاستوں کی جانب سے بڑے پیمانے پر مزدوروں کے حقوق سے متعلق قوانین کو معطل کئے جانے پر ٹریڈ یونینز، سماجی کارکنان اور اپوزیشن سیاسی جماعتیں آگ بگولہ ہوگئی ہیں۔
دی سینٹر آف انڈین ٹریڈ یونینز(سی آئی ٹی یو) نے اسے ’’ملک کو دولت کما کر دینے والے مزدوروں کے لئے ایک غلامانہ ماحول قائم کرنے کا وحشیانہ اقدام‘‘ قرار دیا ہے۔ کانگریس لیڈر راہل گاندھی نے کہا کہ کورونا وائرس کے بحران کی وجہ سے ’’ انسانی حقوق کو پامال کرنے ، غیر محفوظ کارخانوں کو چلانے ،مزدوروں کا استحصال کرنے اور ان کی آواز کو دبانے جیسے اقدامات کو جواز فراہم نہیں ہوسکتا ہے۔‘‘ یہاں تک کہ آر ایس ایس اور بی جے پی سے جڑی بھارتیہ مزدور سنگھ نے بھی ان فیصلوں کو ہدف تنقید بنایا ہے۔
ان ریاستوں میں لیبر قوانین کو معطل کرنے سے کئی آئینی اور قانونی سوالات پیدا ہوگئے ہیں۔ آئین کی رو سے مرکزی اور ریاستی سرکاروں کو مزدوروں سے متعلق قوانین بنانے کا حق حاصل ہے۔ فی الوقت ملک میں مزدوروں سے متعلق مرکزی حکومت کے چوالیس اور ریاستوں حکومتوں کے ایک سو قوانین نافذ ہیں۔ ریاستی حکومتوں کو مزدوروں سے متعلق مرکز کے قوانین میں ترمیم کرنے کا اختیار بھی حاصل ہے۔ لیکن آئینِ ہند کی دفعہ 254(2) کے مطابق ریاستوں کی جانب سے متعارف کرائے جانے والے قوانین مرکز کے قوانین سے متصادم ہوں، تو انہیں پاس کرنے کے لئے صدرِ ہند کی منظوری لازمی ہوگی۔
اُترپردیش اور مدھیہ پردیش نے آئین ہند کی دفعہ 213 کے تحت جاری کردہ ایک آرڈینینس کے ذریعے مرکزی قوانین کو معطل کردیا ہے۔ آئین کی اس دفعہ کے تحت کی گئی اس کارروائی کو گورنر منظوری دے سکتا ہے۔ یعنی اگر اسمبلی کا اجلاس جاری نہ ہو تو اس طرح کے آرڈی نینس کو نافذ کرنے کےلئے گورنر اپنی منظوری دے سکتا ہے۔ چونکہ ان ریاستوں نے لیبر قوانین کو معطل کردیا ہے، جو کہ مرکزی قوانین سے متصادم اقدام ہے، اس لئے ایسا کرنے کے لئے صدرِ ہند کی منظوری ناگزیر ہے۔ یہ بات بھی طے ہے کہ صدرِ ہند ہمیشہ مرکزی سرکار کی صلاح کے مطابق کام کرتے ہیں۔ اس طرح سے اس سارے معاملے سے متعلق بال نریندرا مودی سرکار کے پالے میں آگئی ہے۔ یعنی اب یہ فیصلہ مودی سرکار کو کرنا ہے کہ وہ مزدوروں کے حقوق سے متعلق قوانین کو معطل کرنے کی اجازت دیتی ہے یا نہیں۔
متذکرہ آرڈنینس کے نتیجے میں بھارت کے لیبر لاز مکمل طور پر متاثر ہوجاتے ہیں، اس لئے توقع ہے کہ مرکزی سرکار کو اس آرڈی نینس کی منظوری نہیں دے گی۔ لیکن یہ ریاستی حکومتیں چونکہ بی جے پی کی ہی ہے، اس لئے یہ دیکھنا دلچسپ ہوگا کہ کیا مرکزی سرکار اترپردیش اور مدھیہ پردیش کی حکومتوں کے ان فیصلوں پر اعتراض کرتی ہے یا نہیں۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ اگر صدرِ ہند ان آرڈی نینسز کو اپنی منظوری دے بھی دیتے ہیں، تب بھی انہیں عدالت میں چیلنج کیا جاسکتا ہے۔ لیبر قوانین کو بڑے پیمانے پر معطل کرنے کا یہ اقدام بظاہر غیر آئینی لگتا ہے اور یہ آئین کے تحت مزدوروں کو حاصل بنیادی حقوق کی خلاف ورزی بھی ہے۔
آئین ہند کی دفعہ 23 کے تحت ہر شہری کو بنیادی حقوق حاصل ہیں۔ اس دفعہ کی رو سے ’’ فورسڈ لیبر (جبری مشقت)‘‘ کے استحصال سے بھی شہریوں کو تحفظ حاصل ہے۔ جبری مشقت کے کئی معنی ہیں۔ عدالت عظمیٰ نے اس اصطلاح کی وسیع پیمانے پر تشریح کی ہے۔سنہ 1982ء میں عدالت عظمیٰ نے پیپلز یونین فار ڈیموکریٹک رائٹس بنام حکومت ہند نامی کیس میں ایک اہم فیصلہ سناتے ہوئے کہا، ’’ جب کوئی شخص دوسرے شخص کو معاوضے کے عوض مزدوری پر لگاتا ہے لیکن یہ معاوضہ طے شدہ کم از کم اجرت سے کم ہو، تو یہ معاملہ آئین کی دفعہ 23کے تحت ’’جبری مشقت‘‘ کے زمرے میں آتا ہے۔‘‘ اس فیصلے کی رو سے لیبر قوانین کو معطل کرنے کا اقدام آئین میں فراہم کردہ بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ یہ اقدامات انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن (آئی ایل او) کے کنونشن نمبر 144، جس پر بھارت نے بھی دستخط کیا ہے.
ایک ایسے وقت میں جب کورونا وائرس لاک ڈائون کی وجہ سے مزدور طبقہ پہلے ہی معاشی بدحالی سے جھوجھ رہا ہے، اس طرح کے قوانین متعارف کرانا نہ صرف قانونی بلکہ اخلاقی لحاظ سے بھی غلط ہے۔ مزدوروں کے تحفظ اور طبی سہولیات سے جڑے قوانین میں تحریف کی وجہ سے اس بحران نے مزدو طبقہ کو مزید خطرات سے دوچار کردیا ہے۔
( میتھیو اڈی کیولا ایک وکیل ہیں اور سینٹر فار لائ اینڈ پالیسی ریسرچ، بنگلورو، کے ایک کنسلٹنٹ ہیں)