چند دن قبل امور خزانہ کے وزیر مملکت انوراگ ٹھاکُر نے پارلیمنٹ کو مطلع کیا کہ الیکشن کمیشن آف انڈیا انتخابات کے لئے حکومت کی فنڈنگ کے حق میں نہیں ہے۔انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن آف انڈیا نے حکومت کوبتایا ہے کہ وہ حکومت کی جانب سے الیکشن کے لئے فنڈ مہیا کرنے کے حق میں نہیں ہے۔ کیونکہ ایسا کئے جانے کی صورت میں الیکشن کمیشن آف انڈیا اُمیدواروں کی جانب سے انتخابی مہم کے دوران خرچ کئے جانے والےاُن کے اپنے پیسے یا کسی دوسروں کی جانب سے ان پر لگائے جانے والے پیسوں پر نظر گزر نہیں رکھ پائے گا۔وزیر موصوف نے مزید کہا کہ الیکشن کمیشن کا کہنا ہے کہ اصل مسئلے کی تدارک کے لئے قواعد و ضوبط میں سخت تبدیلیاں لانی ہونگی تاکہ سیاسی جماعتوں کی جانب سے فنڈنگ حاصل کرنے اور پھر اسے خرچ کرنے کے معاملات میں شفافیت لائی جاسکے۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ الیکشن کمیشن نے وزیر اعظم کی یہ تجاویز بھی مسترد کردی تھی جن میں انہوں نے کہا تھا کہ حکومت الیکشن لڑنے کے لئے فنڈ مہیا کرے گی اور لوک سبھا اور ریاستوں کےانتخابات بیک وقت منعقد کرائے جائیں، تاکہ حکومت اور انتخابی مشنری کا وقت بچ جائے ۔یہ تجاویز وزیر اعظم نے نوٹ بندی کے اقدام کے بعد پیش کی تھی۔
باوجود اس کے کہ الیکشن کمیشن آف انڈیا نے انتخابات کے لئے حکومت کی فنڈنگ کی تجویز مسترد کردی ہے۔وزیر موصوف نے پارلیمنٹ کو بتایا کہ سرکار نے بھارت میں انتخابی عمل کے دوران پیسے کی طاقت کا استعمال روکنے اور سیاسی فنڈنگ میں شفافیت لانے کا تہیہ کررکھا ہے۔
انہوں نے کہا کہ سیاسی فنڈنگ کے ذرائع اور نقدی کے لین دین کو روکنے کے لئے ہی حکومت نے انکم ٹیکس ایکٹ میں ترمیم کی ہے اور نامعلوم فنڈنگ کی حد محض دو ہزار کی حد مقرر کرلی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ حکومت نے سال 2018 میں الیکٹورل بانڈز بھی اسی مقصد سے متعارف کرائے ہیں۔ یہ الیکٹورل بانڈز اسٹیٹ بینک آف انڈیا کی مختلف شاخوں سے جاری کردیئے گئے ہیں۔ ان کے ذریعے ہی کوئی اپنی مرضی سے سیاسی جماعتوں کو ایک ہزار، دس ہزار، ایک لاکھ، دس لاکھ اور ایک کروڑ روپے کی رقومات عطیہ کرسکتا ہے۔
صرف اُن ہی سیاسی جماعتوں کو اس طرح کی فنڈنگ فراہم کی جاسکتی ہے، جنہوں نے حالیہ پالیمانی یا اسمبلی انتخابات میں کم از کم مجموعی ووٹ کا ایک فیصد حاصل کیا ہو۔اس طرح سے نئی نویلی سیاسی جماعتوں کے لئے فنڈنگ کا حصول ایک بڑا چیلنج ہوگا کیونکہ انتخابات میں کم از کم ایک فیصد ووٹ حاصل کرنا ایک نئی جماعت کے لئے کوئی آسان بات نہیں ہے۔ ظاہر ہے کہ ان ضوابط کا فائدہ صرف معروف سیاسی جماعتوں کو ہی حاصل ہوگا جن کی عوام میں مقبولیت ہو۔
لیکن اب سوال یہ کہ کیا الیکٹورل بانڈز جاری کرنے کے اس اقدام سے سیاسی فنڈنگ میں شفافیت آئی ہے ؟ قانون کی رو سے سیاسی جماعتوں کے لئے فنڈنگ کرنے والوں کی شناخت مخفی رکھنا لازمی ہے۔بجائے کالے دھن پر روک لگانے کے شناخت کو مخفی رکھے جانے کی اس قانونی مجبوری کا فائدہ بعض لوگ اور کمپنیاں اٹھا رہی ہیں۔انہیں اپنے کالے دھن کو سیاسی جماعتوں کو عطیہ کرنے کا موقع فراہم ہوتا ہے، کیونکہ ان کی شناخت صیغہ راز رکھی جاتی ہے۔
گزشتہ چند برسوں کے دوران انتخابی عمل کو درست کرنے کے نام پر مختلف سیاسی جماعتوں نے کافی زبانی جمع خرچ کیا ہے لیکن حق بات یہ ہے کہ موجودہ نظام نے اس ضمن میں صورتحال کو مزید مبہم بنا کر رکھ دیا ہے۔جبکہ حقیقی اصلاحات کے حوالے سےکوئی کام نہیں کیا گیا ہے۔
فارن کنٹری بیوشن (ریگولیشن ) ایکٹ میں ترمیم کے ذریعے سیاسی جماعتوں کو غیر ملکی فنڈنگ حاصل کرنے کی راہ ہموار ہوگئی ہے ۔ یہ ایک خطرناک بات ہے۔ بیرونی ممالک سے آنے والی فنڈنگ اور فنڈ فراہم کرنے والے کی شناخت مخفی رکھنے کا قانون خطرناک نتائج کا حامل ہوسکتا ہے۔اس کے نتیجے میں بیرونی ممالک سے آنے والی فنڈنگ سے ہمارا سیاسی نظام متاثر ہوکر رہے گا۔