اردو

urdu

مسلم رہنماوں نے مظاہرین اور طلبا پر پولیس بربریت کی مذمت کی

جمعیت علماء ہند کے صدر مولانا ارشد مدنی کی صدارت میں آج ملی تنظیموں کی میٹنگ منعقد ہوئی، جس میں یونیورسٹی کے طلبا پر پولیس کی جانب سے ہوئی بربریت بالخصوص بی جے پی کی قیادت والی ریاستوں میں مظاہرین پر ہوئے حملے پر تشویش کا اظہار کیاگیا، اور اس پورے واقعے کی جوڈیشیل جانچ کرانے کی مانگ کی گئی۔

By

Published : Jan 10, 2020, 7:59 PM IST

Published : Jan 10, 2020, 7:59 PM IST

میٹنگ میں موجود مسلم رہپنما بشمول مولانا سید ارشد مدنی
میٹنگ میں موجود مسلم رہپنما بشمول مولانا سید ارشد مدنی

شہریت ترمیمی قانون کی منظوری اوراین پی آرکو نافذ کرنے کے اعلان کے بعد ملک بھرمیں احتجاج کا جو سلسلہ شروع ہوا اور اس احتجاج کو کچلنے کے لئے جس طرح جگہ جگہ طاقت کااستعمال کیا گیا یہاں تک کے یونیورسٹیوں اور کالجوں کے طلباء کو بھی نہیں بخشاگیا اس کے خلاف پورے ملک میں غم وغصہ کی ایک لہر چل پڑی ہے اور ان حملوں کے خلاف لوگ کھل کر سڑکوں پر احتجاج کررہے ہیں جسے روکنے کے لئے پہلے ہی کی طرح طاقت کا استعمال کیا جارہا ہے اس سے ملک کے حالات انتہائی تشویشناک ہوچکے ہیں، ان حالات میں کیاہوناچاہئے، ملک میں کس طرح امن واتحادقائم کیا جاسکتاہے اورمتنازعہ قوانین کے خلاف ہماراموقف کیا ہوان تمام اہم باتوں پر غوروخوض کے لے جمعیۃعلماء ہند کے صدردفتر دہلی مولانا سیدا رشدمدنی کی صدارت میں پہلی بار ملک کے قد آور نمائندہ ملی تنظیموں کی ایک اہم میٹنگ میں منعقد ہوئی۔

میٹنگ میں موجود مسلم رہپنما بشمول مولانا سید ارشد مدنی

اس میٹنگ میں جمعیۃعلماء ہند، جماعت اسلامی ہند، مرکزی جمعیت اہل حدیث ہند،، ملی کونسل، مسلم مجلس مشاورت کے ذمہ داران کے علاوہ دارالعلوم دیوبند کے مہتمم اورمتعدد اہم اور مقتدرشخصیات نے ملک کی مختلف ریاستوں سے شرکت کی۔

میٹنگ میں شہریت ترمیمی قانون 2020این آرسی اور این پی آرکے مختلف پہلوں اور اس کے خلاف ملک گیر سطح پر چلنے والی تحریک کا تفصیلی جائزہ لے کر درج ذیل قراردادیں منظورکی گئیں۔

شہریت ترمیمی قانون، این پی آراور این آرسی پردینی وملی تنظیموں کا یہ اجتماع
دینی وملی تنظیموں نے شہریت ترمیمی قانون 2020، این پی آراور این آرسی کے قوانین پر تشویش ظاہر کی، اور کہا کہ شہریت ترمیمی قانون نہ صرف ملک کی تکثیری حیثیت کے

خلاف ہے بلکہ دستورہند سے بھی متصادم ہے۔

یہ قانون مذہب کی بنیادپر انسانوں کے درمیان تفریق پید اکرتاہے اوردستورکی بنیادی حقوق کی دفعات 14،15اور 21 سے براہ راست متصادم ہے، نیز آئین ہند کے پریامبل کے بھی خلاف ہے۔

اسی طرح ملی تنظیموں کا ماننا ہے کہ این آرسی کے ذریعہ آسام میں افراتفری پید اہوئی ہے اور شہریوں کو محض اس بنیادپر این آر سی سے ان کا نام کارج کر دیا گیا کہ ان کی۔

دستاویزات میں املے کی غلطیاں تھیں۔

ملی تنظیموں نے یہ بھی مانا ہے کہ اب جو این پی آر لایا گیا ہے وہ دراصل این آرسی کی ہی ابتدائی شکل ہے، نیز اس میں 2010کے این پی آرسے زیادہ چیزوں کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

اجلاس میں شامل شرکا نے مطالبہ کیا ہے کہ 'سی اے اے' سے مذہبی تفریق کو ختم کیا جائے، اسی طرح این پی آرکو یا تو واپس لیا جائے یا اس کی اضافی شقوں کو ختم کیاجائے

اجلاس میں اس بات پر بھی غور وفکر کیا گیا کہ 'سی اے اے' کے اس قانون سے پڑوسی ملک بالخصوص بنگلہ دیش سے ہمارے دوستانہ تعلقات کو بھی متاثرکرے گا۔
ملک کے جامعات پر حملے
اجلاس میں جامعہ ملیہ اسلامیہ، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور دیگر طلباء ونوجوانوں کے ذریعہ شہریت قانون 'این سی آر' اور 'این پی آر'کے خلاف چلائی جارہی تحریکوں کی بھرپورحمایت اور حوصلہ افزائی کی گئی، اور پولس کے ذریعہ جامعہ ملیہ اسلامیہ، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، جواہر لال نہرویونیورسٹی اور حیدرآباد سینٹرل یونیورسٹی وغیرہ کے

طلباء پر حملوں کی پرزورمذمت کی گئی۔

میٹنگ میں نقاب پوش غنڈوں کے ذریعہ ملک کی معروف اورمقبول ترین یونیورسٹی جے این یو کے طلباء پر ہوئے حملہ کو انتہائی افسوسناک اور قابل مذمت قرار دیا گیا۔

'شرکا نے کہا کہ افسوس کی بات یہ ہے کہ پولس اور یونیورسٹی کی سیکورٹی فورس اس حملہ کے وقت نہ صرف خاموش تماشائی بنی رہی بلکہ حملہ آوروں کی پشت پناہی کرتی دکھائی دی'۔

اس دوران یونیورسٹی کیمپس پر ہوئے حملوں کی جوڈیشل جانچ کرائے جانے کا مطالبہ کیا گیا اور ان پولس اہلکار و افسران کے خلاف سخت تادیبی کاروائی کی مانگ کی گئی جو اس میں ملوث جاتے ہیں۔

بی جے پی اقتداروالی ریاستوں میں مظاہرین پر حملے
ملی تنظیموں کے اس اجلاس میں بی جے پی اقتداروالی ریاستوں میں پرامن مظاہرین پر پولس کی بربریت اور حملوں کی سخت ترین الفاظ میں مذمت کرتاہے، جس کے نتیجہ میں آسام اور یوپی سے لیکر کرناٹک تک تیس سے زیادہ افراد پولس کی گولیوں سے شہید اور بڑی تعدادمیں لوگ زخمی ہوگئے اور سیکڑوں کی تعدادمیں مظاہرین کو گرفتارکرکے ان پر مقدمات قائم کردیئے گئے ہیں۔

اجلاس میں بغیر کسی تحقیق اور عدالتی کارروائی کے مسلمانوں کی دوکانوں کو ضبط کرکے ان سے سرکاری املاک کے نقصان کی تلافی والے حوکمت کے اقدام کو افسوسناک بتایا گیا اور اس کی سخت الفاظ میں مذمت کی گئی۔اور یہ مطالبہ کیا گیا کہ پولس کے ذریعہ تشددکے ان واقعات کی جوڈیشل جانچ کرائی جائے اور جوافسران اس میں ملوث پائے جائیں ان کے خلاف تادیبی کارروائی کی جائے، اجلاس میں ان ریاستی حکومتوں سے مطالبہ کیا گیا کہ ہلاک شدگان اور زخمیوں کو بھرپورمعاوضہ دیا جائے۔

اجلاس میں درج ذیل شخصیات نے شرکت کیں
مولانا سیدارشدمدنی، مولانامحمد ولی رحمانی ، مولانا مفتی ابوالقاسم نعمانی ، جناب سید سعادت اللہ حسینی ، مولانا عبداللہ مغیثی، مولانا عبدالخالق مدراسی ، مولانا اصغرعلی امام مہدی سلفی، ڈاکٹرمحمد منظورعالم، پروفیسر اخترالواسع، ڈاکٹرسید قاسم رسول الیاس، نوید حامد، مولانا شبیرندوی، ملک معتصم خاں، مولاناعبدالعلیم فاروقی، مولانا اسجد مدنی ، مولانا اشہد رشیدی، مولانا مسلم قاسمی، مفتی اشفاق احمد، مولانا حلیم اللہ قاسمی، مولانا قاری شمس الدین ، مولانا محمد خالدقاسمی ، مولانا محمد ہارون، مفتی عبدالرازق اورپروفیسر احتشام الحق۔

ABOUT THE AUTHOR

...view details