ای ٹی وی بھارت سے بات چیت کے دوران معروف عالم دین اور عیدگاہ کے اماممولانا خالد رشید فرنگی محلی نے کہا کہ 'حکومت کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ تعلیم کو فروغ دے، نہ کہ اس کے برعکس عمل کر کے مدارس کو بند کرنے کا فیصلہ کرے'۔
انہوں نے کہا کہ 'حکومتیں چند ہی مدارس کو امداد فراہم کرتی ہے لیکن یہ کوئی احسان نہیں ہے۔ ان تعلیمی اداروں میں عوام کا پیسہ ہی عوام پر خرچ کیا جاتا ہے'۔
مولانا خالد نے سخت الفاظ میں کہا کہ 'سرکاری امداد صرف مدارس کو ہی نہیں ملتی بلکہ دوسرے ادارے بھی سرکاری امداد سے چلتے ہیں'۔
انھوں نے کہا کہ 'کچھ لوگوں کو لگتا ہے کہ مدارس میں صرف قرآن حدیث کی تعلیم دی جاتی ہے ایسا بالکل نہیں ہے۔ کیونکہ وہاں پر سائنس، ٹیکنالوجی، کمپیوٹر، ہندی، انگریزی اور جغرافیہ کی بھی تعلیم دی جاتی ہے لہذا لوگ لاعلمی کی وجہ سے ایسی باتیں کرتے ہیں'۔
'اکثر دیکھا جاتا ہے کہ جب الیکشن قریب آتے ہیں، تبھی مسلمانوں کو لے کر طرح طرح کی باتیں کی جاتی ہیں۔ ان ہی میں سے مدرسہ بند کرنے کا فیصلہ ہے۔ یہ صرف ووٹ بینک کی خاطر کیا جا رہا ہے لیکن عوام اب سب سمجھتی ہے'۔
'مسلمانوں کو کسی بھی مسئلہ پر بیک فٹ پر آنے کی ضرورت نہیں ہے۔ بھارت میں سبھی مذاہب کے لوگ رہتے ہیں اور سبھی کو یہاں کے وسائل پر برابر کے حق حاصل ہیں'۔
آل انڈیا شیعہ پرسنل لا بورڈ کے ترجمان یعسوب عباس نے کہا کہ 'جنگ آزادی میں مدارس کا اہم رول رہا ہے۔ ان مدارس نے بڑے بڑے رہنما ملک کو دیے ہیں۔ افسوس کی بات ہے کہ اس وقت مسلمانوں کو تعصب کی نگاہوں سے سرکار نے دیکھنا شروع کر دیا ہے۔ میں آسام حکومت کے اس فیصلے کی مذمت کرتا ہوں'۔
شیعہ پرسنل لا بورڈ کے ترجمان نے کہا کہ 'مدرسہ اور شیشو مندر بھارت کی دو آنکھیں ہیں لہذا دونوں کو برابر کے حقوق حاصل ہے لیکن کچھ لوگ صرف ایک ہی فرقے کو دیکھنا پسند کر رہے ہیں، جو بالکل غلط ہے’۔
انہوں نے کہا کہ 'ہمارے علما کو متحد ہوکر قیادت کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر عام مسلمان حکومت کے خلاف احتجاج کرے گا، تو انہیں جیل بھیج دیا جائے گا لہذا اس کی قیادت علما ہی کریں'۔
'میں آسام حکومت کے فیصلے کی مذمت کرتا ہوں اور آسام حکومت سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرے'۔
قابل ذکر ہے کہ آسام حکومت نے سرکاری امداد یافتہ مدارس کو بند کرنے کا فیصلہ کیا ہے، جس کے بعد ملک بھر کے مسلم دانشوران نے سرکار کے فیصلے کو غیر آئینی قرار دیا اور اسے ووٹ بینک کی سیاست قرار دیتے ہوئے کہا کہ 'سرکار کو اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرنی چاہیے'۔