اردو

urdu

ETV Bharat / bharat

کوئی ہماری طرح عمر بھر سفر میں رہا: احمد فراز

پاکستان کے جن شعراء کو عالمی مقبولیت حاصل ہے ان میں احمد فراز کا نام سرفہرست ہے۔ احمد فراز کا اصل نام سید احمد شاہ تھا، وہ 12 جنوری سنہ 1931 کو پاکستان کی ریاست خیبر پختون خواہ کے ضلع کوہاٹ میں پیدا ہوئے۔ 25 اگست 2008 کو پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں ان کا انتقال ہوا۔ آج ان کی 12ویں برسی ہے۔

death anniversary of ahmad faraz special story
یوم برسی احمد فراز: کوئی ہماری طرح عمر بھر سفر میں رہا

By

Published : Aug 25, 2020, 6:35 PM IST

احمد فراز کی پیدائش (پاکستان) کوہاٹ کے ایک معزز سادات خاندان میں ہوئی۔ شاعری کا فن انہیں والد سے وراثت میں ملا۔ ان کے والد سید محمد شاہ برق فارسی کے ممتاز شاعر تھے۔

احمد فراز نے اردو، فارسی اور انگریزی ادب میں ایم اے کیا لیکن ان کی مادری زبان پشتو تھی۔ باوجود اس کے انہوں نے چار زبانوں پر عبور حاصل کر اردو زبان میں شاعری کی سمت تلاش کی۔

یوم برسی احمد فراز: کوئی ہماری طرح عمر بھر سفر میں رہا

ان کے والد کی خواہش تھی کہ وہ سائنس اور ریاضی میں تعلیم آگے جاری رکھیں لیکن فراز کا فطری میلان ادب و شاعری کی طرف تھا۔

فراز نے کبھی عشق، کبھی انقلاب کبھی دوستی تو کبھی ماضی کے حالات اپنی شاعری میں بیان کیے ہیں۔ چند اشعار ملاحظہ کریں۔۔۔

اب زمیں پر کوئی گوتم نہ محمد نہ مسیح

آسمانوں سے نئے لوگ اتارے جائیں

۔۔۔۔۔

اب ترے ذکر پہ ہم بات بدل دیتے ہیں

کتنی رغبت تھی ترے نام سے پہلے پہلے

۔۔۔۔۔

زندگی پر اس سے بڑھ کر طنز کیا ہوگا فرازؔ

اس کا یہ کہنا کہ تو شاعر ہے دیوانہ نہیں

۔۔۔۔۔

تم تکلف کو بھی اخلاص سمجھتے ہو فرازؔ

دوست ہوتا نہیں ہر ہاتھ ملانے والا

۔۔۔۔۔

کچھ اس طرح سے گزاری ہے زندگی جیسے

تمام عمر کسی دوسرے کے گھر میں رہا

۔۔۔۔۔

تیری باتیں ہی سنانے آئے

دوست بھی دل ہی دکھانے آئے

فراز اپنے عہد کے سچے ترجمان تھے، انہوں نے دیگر انقلابی شعرا کی طرح جنرل ضیاءالحق کی حکومت کے خلاف بھی اشعار کہے، جس کی پاداش میں انہیں گرفتار کیا گیا اور چھ برس تک جلا وطنی کا عذاب بھی سہے۔

فراز عام طور سے رومانی شاعر کے طور پر عوام میں مقبول ہیں، ان کی مشہور زمانہ غزل 'سنا ہے لوگ اسے آنکھ بھر کے دیکھتے ہیں' عام و خاص زبان زد ہے۔ اس کے علاوہ محبوب سے جدائی پر مبنی غزل 'رنجش ہی سہی دل ہی دکھانے کے لیے آ' بھی بہت معروف و مقبول غزل ہے۔

دونوں غزل یہاں پیش کی جاتی ہیں۔

سنا ہے لوگ اسے آنکھ بھر کے دیکھتے ہیں

سو اس کے شہر میں کچھ دن ٹھہر کے دیکھتے ہیں

سنا ہے ربط ہے اس کو خراب حالوں سے

سو اپنے آپ کو برباد کر کے دیکھتے ہیں

سنا ہے درد کی گاہک ہے چشم ناز اس کی

سو ہم بھی اس کی گلی سے گزر کے دیکھتے ہیں

سنا ہے اس کو بھی ہے شعر و شاعری سے شغف

سو ہم بھی معجزے اپنے ہنر کے دیکھتے ہیں

سنا ہے بولے تو باتوں سے پھول جھڑتے ہیں

یہ بات ہے تو چلو بات کر کے دیکھتے ہیں

سنا ہے رات اسے چاند تکتا رہتا ہے

ستارے بام فلک سے اتر کے دیکھتے ہیں

سنا ہے دن کو اسے تتلیاں ستاتی ہیں

سنا ہے رات کو جگنو ٹھہر کے دیکھتے ہیں

سنا ہے حشر ہیں اس کی غزال سی آنکھیں

سنا ہے اس کو ہرن دشت بھر کے دیکھتے ہیں

سنا ہے رات سے بڑھ کر ہیں کاکلیں اس کی

سنا ہے شام کو سائے گزر کے دیکھتے ہیں

سنا ہے اس کی سیہ چشمگی قیامت ہے

سو اس کو سرمہ فروش آہ بھر کے دیکھتے ہیں

سنا ہے اس کے لبوں سے گلاب جلتے ہیں

سو ہم بہار پہ الزام دھر کے دیکھتے ہیں

سنا ہے آئنہ تمثال ہے جبیں اس کی

جو سادہ دل ہیں اسے بن سنور کے دیکھتے ہیں

سنا ہے جب سے حمائل ہیں اس کی گردن میں

مزاج اور ہی لعل و گہر کے دیکھتے ہیں

سنا ہے چشم تصور سے دشت امکاں میں

پلنگ زاویے اس کی کمر کے دیکھتے ہیں

سنا ہے اس کے بدن کی تراش ایسی ہے

کہ پھول اپنی قبائیں کتر کے دیکھتے ہیں

وہ سرو قد ہے مگر بے گل مراد نہیں

کہ اس شجر پہ شگوفے ثمر کے دیکھتے ہیں

بس اک نگاہ سے لٹتا ہے قافلہ دل کا

سو رہروان تمنا بھی ڈر کے دیکھتے ہیں

سنا ہے اس کے شبستاں سے متصل ہے بہشت

مکیں ادھر کے بھی جلوے ادھر کے دیکھتے ہیں

رکے تو گردشیں اس کا طواف کرتی ہیں

چلے تو اس کو زمانے ٹھہر کے دیکھتے ہیں

کسے نصیب کہ بے پیرہن اسے دیکھے

کبھی کبھی در و دیوار گھر کے دیکھتے ہیں

کہانیاں ہی سہی سب مبالغے ہی سہی

اگر وہ خواب ہے تعبیر کر کے دیکھتے ہیں

اب اس کے شہر میں ٹھہریں کہ کوچ کر جائیں

فرازؔ آؤ ستارے سفر کے دیکھتے ہیں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

رنجش ہی سہی دل ہی دکھانے کے لیے آ

آ پھر سے مجھے چھوڑ کے جانے کے لیے آ

کچھ تو مرے پندار محبت کا بھرم رکھ

تو بھی تو کبھی مجھ کو منانے کے لیے آ

پہلے سے مراسم نہ سہی پھر بھی کبھی تو

رسم و رہ دنیا ہی نبھانے کے لیے آ

کس کس کو بتائیں گے جدائی کا سبب ہم

تو مجھ سے خفا ہے تو زمانے کے لیے آ

اک عمر سے ہوں لذت گریہ سے بھی محروم

اے راحت جاں مجھ کو رلانے کے لیے آ

اب تک دل خوش فہم کو تجھ سے ہیں امیدیں

یہ آخری شمعیں بھی بجھانے کے لیے آ

شہنشاہ موسیقی کے نام سے مشہور مہدی حسن نے جب مذکورہ غزل 'رنجش ہی سہی' کو اپنی آواز کا سحر عطا کیا تو پہلا مصرعہ عوام میں ضرب المثل کی حیثیت سے مشہور ہوگیا، جو آج بھی قائم ہے۔

سنہ 2004 میں احمد فراز کی ادبی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے حکومت پاکستان نے 'ہلال امتیاز' کے ایوارڈ سے نوازا۔ لیکن انہوں نے پاکستانی صدر پرویز مشرف کے غیر آئینی اقدامات پر احتجاج درج کراتے ہوئے یہ اعزاز واپس کردیا۔

سنہ 2017 میں جب پاکستانی کوک اسٹوڈیو کی طرف سے سیزن 10 میں مذکورہ غزل 'رنجش ہی سہی' کو علی سیٹھی نے آواز دی تو نئی نسل کے نوجوانوں تک احمد فراز ایک بار پھر جا پہنچے۔ اور یہ غزل آج بھی شائقین کی زبان زد ہے۔

ان کے اب تک 14 شعری مجموعے شائع ہو چکے ہیں۔ جن میں جاناں جاناں، خواب گل پریشاں ہے، غزل بہانہ کرو، درد آشوب ،تنہا تنہا، نایافت ،نابینا شہر میں آئینہ، بے آواز گلی کوچوں میں، پس انداز موسم، شب خون، بودلک ، یہ سب میری آوازیں ہیں، میرے خواب ریزہ ریزہ، اے عشق جفاپیشہ شامل ہیں۔

طویل علالت کے بعد 25 اگست 2008 کو اسلام آباد میں ان کا انتقال ہوا۔ ان کی شاعری کے انگریزی، فرانسیسی، ہندی، یوگوسلاوی، روسی، جرمن اور پنجابی میں تراجم ہو چکے ہیں۔

ABOUT THE AUTHOR

...view details