ملک کے کنٹرولر اور آڈیٹر جنرل (سی اے جی) نے رافیل لڑاکا جیٹ معاہدے سے متعلق ایک رپورٹ جاری کی ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ وینڈر آفسیٹ میں طے شدہ شرائط کو پورا کرنے میں ناکام رہا ہے۔ سی اے جی نے کہا کہ وزارت دفاع کو اپنی پالیسیوں پر نظرثانی کرنے کی ضرورت ہے۔
واضح ہو کہ 36 رافیل طیاروں کے آفسیٹ معاہدے کے آغاز میں یہ تجویز تھی کہ وینڈر ڈی آر ڈی او کو اعلیٰ ٹکنالوجی دے کر 30 فیصد آفسیٹ مکمل کرے گا لیکن اب تک اس وینڈر نے ٹیکنالوجی کی منتقلی کو یقینی نہیں بنایا ہے۔
ڈی آر ڈی او کو یہ تکنیک دیسی تیجس لائٹ کامبیٹ ہوائی جہاز کے انجن بنانے کے لئے چاہئے تھی۔
سی اے جی کی رپورٹ کے مطابق آفسیٹ پالیسی کا مطلوبہ نتائج نہیں مل رہے ہیں، لہذا وزارت کو پالیسی پر نظرثانی کرنے کی ضرورت ہے۔ وزارت کو طئے کرنا ہوگا کہ اس کو کیسے نافذ کیا جائے۔ اس کے ساتھ جہاں جہاں بھی کوئی مسئلہ ہے، اس کی نشاندہی کرنے اور حل تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔
خیال رہے کہ فرانس کی ڈاسالٹ ایوی ایشن نے رافیل طیارے بنائے ہیں اور ایم بی ڈی اے نے اس میں میزائل سسٹم لگائے ہیں۔ پارلیمنٹ میں پیش کی جانے والی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ایسا کوئی واقعہ سامنے نہیں آیا ہے جس میں کوئی غیر ملکی وینڈر بھارت کو بڑی ٹکنالوجی دے رہا ہو۔
29 جولائی کو بھارت کو پانچ رافیل طیارے ملے ہیں۔ فرانس کے ساتھ 36 طیاروں کا سودا 59 ہزار کروڑ روپے میں ہوا۔
اس معاہدے میں آفسیٹ پالیسی کے مطابق غیر ملکی کمپنی کو معاہدے کا 30 فیصد بھارت میں تحقیق یا آلات میں خرچ کرنا پڑے گا۔ یہ 300 کروڑ سے زیادہ کی ہر درآمد پر نافذ ہوتا ہے۔