بھارت اور چین کے مابین سرحدی تنازعہ کو لے کر کچھ دن پہلے جھڑپ ہوئی تھی۔ جھڑپ کے بعد اب چین نے بھارتی سائبر اسپیس پر بھی حملہ کرنا شروع کردیا ہے۔
گزشتہ دنوں بھارت میں سائبر اٹیک کی تعداد میں 200 فیصد اضافہ ہوا ہے۔
خیال کیا جاتا ہے کہ بیشتر سائبر حملوں کے پیچھے چین کا ہاتھ ہے۔ پچھلے 4 سے 5 دن میں 40 ہزار سے زیادہ سائبر حملے ہو چکے ہیں۔ یہ سارے حملے چین اور پاکستان نے کیے ہیں۔
بھارت میں سائبر اٹیک کی تعداد میں 200 فیصد اضافہ ریاست مہاراشٹرا کے سائبر سیل کے ذریعہ جمع کردہ معلومات کے مطابق 'یہ سائبر حملے زیادہ تر چین کے علاقے چینگدو سے ہوئے ہیں۔'
بھارت کے لئے یہ نہایت ضروری ہو جاتا ہے کہ وہ نہ صرف اپنے ڈیٹا کو محفوظ رکھے بلکہ سائبر اسپیس میں اپنے دشمن ملک کو بھی جواب دے۔
ایسی صورتحال میں یہ جاننا ضروری ہے کہ سائبر اٹیک کیا ہے؟ اگر کوئی ملک بھارت پر سائبر حملہ کرتا ہے تو کیا ہم اس حملے کا جواب دینے کے لئے تیار ہیں؟ نیز یہ کہ بھارت دوسرے ممالک کے مقابلے کتنا پیچھے ہے؟
اس بارے میں مزید جاننے کے لئے ای ٹی وی بھارت نے پنجاب انجینئرنگ کالج (پی ای سی) کے سائبر سیکیورٹی ڈیپارٹمنٹ کی سائبر سیکیورٹی ایکسپرٹ ڈاکٹر دیویہ بنسل کے ساتھ خصوصی گفتگو کی۔ پیش ہے خاص بات چیت کے کچھ اہم سوالات۔
آخر سائبر کرائم کیا ہے؟
جواب: جیسا کہ لفظ 'سائبر کرائم' سے ہی واضح ہے۔ انٹرنیٹ، الیکٹرانک آلات یا نیٹ ورک کے استعمال سے ہونے والا ہر جرم سائبر کرائم کہلاتا ہے۔ آج شاید ہی کوئی شخص ہوگا جو سائبر سے جڑا نہ ہو۔ آج ہم سب بہت سارے الیکٹرانک آلات استعمال کرتے ہیں۔موبائل اور انٹرنیٹ کا استعمال ہمارے لئے عام ہوگیا ہے۔ وہ لوگ جو ان سب کا استعمال کرتے ہیں وہ سائبر کرائم کی زد میں آتے ہیں، کیوں کہ ان لوگوں کی تمام معلومات غیر ملکی کمپنیوں کے پاس پہنچ جاتی ہیں۔ غیر ملکی کمپنیاں لوگوں کا ڈیٹا بیچ کر پیسہ کما رہی ہیں۔
سائبر حملہ ملک کی سیکیورٹی کو کس طرح اور کتنا متاثر کرتا ہے؟
جواب: آج تمام ممالک سائبر اٹیک یا سائبر کرائم کے نشانے پر ہیں۔ نارمل جنگ لڑنے کے لئے ہر ملک کے پاس تین فورس ہوتے ہیں۔ آرمی، ایئرفورس اور نیوی، لیکن ان تینوں افواج پر بہت زیادہ خرچ آتا ہے۔ جس کا کسی بھی ملک کی معیشت پر برا اثر پڑ سکتا ہے۔ لیکن سائبر اٹیک ایک ایسی جنگ ہے، جو کسی بھی ملک کو بہت بڑا نقصان پہنچا سکتی ہے۔ اسے دوسری جنگ کی طرح لڑنے کے لئے پیسہ خرچ کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی ہے۔
اس کے ذریعہ کسی دوسرے ملک کی اہم اور حساس معلومات کو چوری کرکے اس ملک کے خلاف استعمال کیا جاسکتا ہے۔
سائبر سیکیورٹی کے معاملے میں بھارت دوسرے ممالک کے مقابلے میں کہاں کھڑا ہے؟
جواب: بھارت اس میدان میں دوسرے ترقی یافتہ ممالک سے تھوڑا پیچھے ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ بھارت میں استعمال ہونے والے الیکٹرانک ڈیوائسز، انٹرنیٹ سرورز، موبائلز، ایپس، سافٹ ویئر، آپریٹنگ سسٹم یہ سب دوسرے ممالک تیار کرتے ہیں۔ ہم برسوں سے وہی ٹولز اور سافٹ وئیر استعمال کررہے ہیں۔ ان کے استعمال سے ہماری ساری معلومات دوسرے ممالک میں جا رہی ہیں۔
آج ہر کوئی گوگل، فیس بک، واٹس ایپ اور انسٹاگرام کا استعمال کر رہا ہے۔ ان سافٹ ویئر میں ہماری ساری معلومات ہوتی ہے۔ غور کریں کہ یہ سبھی ایپس دوسرے ممالک کے ہیں۔ ایسی صورتحال میں جب ہم یہ ایپس استعمال کرتے ہیں تو ہم نہ چاہتے ہوئے بھی اپنی تمام معلومات دوسرے ممالک کو فراہم کر دیتے ہیں۔ اگر سائبر کمپنیاں چاہیں تو وہ ہمارا ڈیٹا بھی فروخت کرسکتی ہیں اور ہم ان کو ایسا کرنے سے روک بھی نہیں سکتے، کیوکہ ان کمپنیوں کے پالیسی مطابق ہم انہیں خود ایسا کرنے کی اجازت دیتے ہیں۔
ایک ملک دوسرے ملک سے معلومات کیوں جمع کرتا ہے؟ یہ ہیکنگ کیوں کی جاتی ہے؟
جواب: ہر ملک اپنے آپ کو طاقتور ثابت کرنا چاہتا ہے۔ اس کے علاوہ کسی دوسرے ملک کی خفیہ معلومات حاصل کرنے کے لئے بھی ہیکنگ کی جاتی ہے۔ مثال کے طور پر 26 مارچ 2020 کو ایک روسی ہیکر نے بھارت کے محکمہ انکم ٹیکس کا 800 GB ڈیٹا ہیک کرلیا تھا، جسے ہیکر نے فروخت کرنے کی کوشش کی۔
ایسا کر کے دوسرے ممالک طاقت ظاہر کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ دکھانے کی کوشش کی گئی کہ ہم آپ کی خفیہ معلومات کو آپ کے خلاف ہی استعمال کر سکتے ہیں۔اس کے علاوہ ہیکنگ کے ذریعہ دوسرے ممالک ہمیں یہ بتانے کی کوشش کرتے ہے کہ ہمارے پاس آپ کے مقابلے اچھی ٹکنالوجی ہے۔ آپ ہمارے ساتھ کام کریں۔
سائبر حملے سے ملک کو کیسے بچایا جا سکتا ہے؟
جواب: دوسرے ممالک 30 سال قبل ہی سائبر کی طاقت کو پہچان گئے تھے اور انہوں نے اس کی ترقی کے لئے کام کرنا شروع کر دیا تھا لیکن بھارت نے اس معاملے میں دیر کر دی۔ جس کی وجہ سے آج ہمارا ملک دوسرے ممالک پر زیادہ منحصر ہے۔ ہمارے پاس ڈیٹا کی حفاظت کے لئے کوئی قانون نہیں ہے۔
اگر ہمیں سائبر اٹیک سے خود کو بچانا ہے تو سب سے پہلے ہمیں ڈیٹا پرائیویسی قانون کو مضبوط بنانا ہوگا۔
مثال کے طور پر گوگل ایک امریکی کمپنی ہے لیکن اگر اس کے ڈیٹا بنگلہ دیش میں استعمال کیا جا رہا ہے تو اس ڈیٹا پر بنگلہ دیش کا ہی قانون نافذ ہوگا۔ ہمارے ملک میں ڈیٹا پرائیویسی کا کوئی مضبوط قانون موجود نہیں ہے۔ جس کی وجہ سے ہم اپنے ڈیٹا کو دوسرے ملک جانے سے بچا نہیں پاتے ہیں۔