ہماری بقا کا دارو مدار زراعت پر ہے اور اچھی فصل کا انحصار اچھے بیج پر ہے جو کسانوں کو منظم سیڈ سیکٹر ، پبلک و پرائیویٹ سے فراہم ہو تا ہے ۔اس وقت ہم چونکہ کورونا وائرس کے بحران سے نمٹ رہے ہیں ‘یہ ضروری ہے کہ کسانوں کو خریف سیزن کیلئے بروقت اچھے بیج اور دوسری چیزیں مہیا ہوں ۔
بھارت کو خریف سیزن میں 250 لاکھ کوئنٹل بیج کی ضرورت ہو تی ہے ۔ اس بیج کی تیاری مارچ اور مئی کے مہینوں کے درمیان ہو تی ہے۔اس کی شروعات کسانوں کے کھیتوں سے ہو تی ہے جہاں بیج کو زرخیز بنانے کا عمل ماہر ٹیموں کی نگرانی میں ہو تا ہے ۔اس کے بعد بیجوں کی کٹائی ہوتی ہے، انہیں سکھایا جاتا ہے، اچھی بیج کا انتخاب ہو تا ہے ۔ اس کے بعد بیج کو پروسیسنگ پلانٹوں پر مزید کارروائی کیلئے بھیج دیا جاتا ہے، وہاں سے ٹیسٹنگ کیلئے ان کا رخ لیباریٹریوں کی جانب کیا جاتا ہے اور پھر جا کے ان کو کسانوں تک پہنچایا جاتا ہے ۔
اس سارے عمل میں وقت لگتا ہے اور چونکہ اس کا انحصار فطرت پر ہے۔ اس لئے اس میں کسی قسم کی تبدیلی نہیں لائی جا سکتی ہے ۔بیج تیار کرنے کا یہ سارا عمل انتہائی پیچیدہ ہے جس کیلئے اس کے منسلک سیکٹروں کی مدد بھی درکار ہو تی ہے ۔ٹرانسپورٹ سے لیکر ٹیسٹنگ لیباریٹری اور پھر بیج کی پیکیجنگ، ان سب کا ایک کلیدی رول ہے ۔اور یہ بات ذہن نشین کیجئے کہ یہ سب اجتماعی طور پر کوروناوائرس کے حملے سے خود کو بچانے میں ناکام رہے ہیں۔
دریں اثنا انٹرنیشنل سیڈ فیڈریشن (آئی ایس ایف) نے ایک حالیہ بیان میں یورپین فوڈ سیفٹی اتھارٹی (ای ایف ایس اے) سنٹر فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریونشن(سی ڈی سی)اور بی ایف آر کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے’’اس وقت اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ خوراک بشمول بیج کورونا وائرس کا ممکنہ ذریعہ یا اس کے پھیلاؤ کا راستہ ہے۔سطحیح جو حال ہی میں وائرس سے آلودہ ہوئیں ہوں ان کے ذریعے وائرس پھیل سکتا ہے لیکن ایسا ان سطحوں کے آلودہ ہونے کے بعد قلیل مدت عرصے تک رہے گا کیونکہ وائرس ماحول میں زیادہ دیر تک نہیں رہتا ہے‘‘۔
دوسرے الفاظ میں کہا جائے تو اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ بیج وائرس کے داخل ہو نے کا کوئی دروازہ ہے ‘ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ خوف وائرس سے زیادہ تیزی سے پھیلتا ہے۔
وفاقی اور ریاستی حکومتوں نے لوگوں میں اس خوف پر قابو پانے کیلئے زراعت کے شعبے بشمول بیج، مزدو اور اس سے منسلک شعبوں کو استثنیٰ دے کر اچھا کام کیا ہے۔تلنگانہ، اتر پردیش اور کچھ دیگر ریاستیں اس ضمن میں کافی متحرک نظر آئی ہیں۔مختلف سیکٹروں کیلئے خصوصی پیکیجوں کا اعلان کیا گیا ہے ۔ریلوے کو ساتھ رکھ کر ٹرانسپورٹ سے جڑے مسائل کا ازالہ کیا گیا ہے ۔آئی سی اے آر نے ایگرو ایڈ وائزری جاری کی ہے جس میں صحت و صفائی اور سماجی دوری بنائے رکھنے پر زور دیا گیا ہے۔لیکن اس سب کے باوجود بھی بیج کے شعبے میں سب کچھ ٹھیک نہیں ہے ۔
استثنیٰ ملنے کے باوجود بیج اور اس سے منسلک سیکٹروں کو مقامی سطح پر ہراسانیوں کے علاوہ تشدد کا بھی سامنا کرنا پڑا ہے۔سیڈ ہبس اور پیداواری مراکز پر دباؤ ہے کہ وہ بند رہیں ۔مزدور اور ان کے ساتھی اس موقع کا استعمال کرکے غیر منطقی مطالبات کررہے ہیں ۔ کچھ علاقوں میں راستوں کو بند کرکے مزدوروں کی آزادانہ نقل و حمل پر روک لگائی جا رہی ہے ۔ٹرانسپورٹ خدمات کو بحال ہونے نہیں دیا جارہا ہے جبکہ ڈرائیوروں کو بھی ہراساں کیا جارہا ہے ۔بڑھتی اجرتوں کے علاوہ اس بات کی بھی اطلاعات ہیں کہ انونٹری نقصانات میں اضافہ ہوا ہے جبکہ ٹرانسپورٹ اخراجات بھی بڑھ رہے ہیں ۔سیڈ سیکٹر میں مجموعی طور پرقیمتیں بڑھ گئی ہیں جس کی وجہ سے چھوٹی اور درمیانہ درجے کی کمپنیوں کو مشکلات کا سامنا ہے ۔
ملک میں چھوٹی اور درمیانہ درجے کی بیج تیار کرنے والی کمپنیوں کی اچھی خاصی تعداد ہے جنہیں ایک دوسرے سے سخت مقابلہ ہے ۔یہ کمپنیاں اکثر اپنے کام کو متعدد خدمات فراہم کرنے والے اداروں کو آؤٹ سورس کرتی ہیں جس میں بیجوں کو سکھانا، ان کی پیکنگ اور سٹوریج شامل ہے۔ان میں سے کئی بینکوں یا پھر نجی طور پر قرضہ دینے والوں سے پیسے لیتی ہیں تاکہ یہ اپنا کام جاری رکھ سکیں۔اگر قیمتوں میں معمولی اضافہ بھی ہو جائیگا تو یہ ان کے معمول کے کام میں مشکلات پیدا کر سکتا ہے ۔