اس لاک ڈاؤن کی ایک اہم خامی یہ ہے کہ اسے حکومت نے بغیر کسی پیشگی نوٹس کے عملایا، جس کی وجہ پورے ملک میں افرا تفری مچ گئی اور بڑے شہروں میں روزگار کے لیے آئے ہزاروں مزدور اپنے گھروں کو پہنچنے کے لیے پیدل سفر طئے کرنے پر مجبور ہو گئے اور ان میں سے ایک بڑی تعداد ریاستی سرحدوں پر درماندہ ہوکے رہ گئی۔
اسی طرح اس بات کو بھی دھیان میں نہیں رکھا گیا کہ 'ایک غریب جو دن میں کماتا ہے اور شام کو کھاتا ہے وہ کیسے تین ہفتہ طویل لاک ڈاؤن میں روزی روٹی کمائے گا'۔ لاک ڈاؤن کے کچھ دنوں بعد ان کی حالت زار کو دیکھتے ہو ئے حکومت نے ان کے لیے ایک راحتی پیکیج کا اعلان کیا ۔
ایک صحیح سوچا سمجھا وضع کردہ منصوبہ پہلے غریبوں کے تحفظ کے حوالے سے کچھ اقدامات کرتا پھر لاک ڈاؤن شروع کیا جاتا۔
اس منصوبے میں کسی دور اندیشی کا فقدان اس امر سے بھی واضح ہوجاتا ہے کہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے بند ہونے والی فیکٹریوں میں وہ کار خانے بھی شامل ہیں جو طبی آلات بناتے ہیں۔ یہ کار خانے ایک ایسے وقت میں بند ہوئے جب کہ ضرورت اس بات کی تھی کہ یہ کارخانے کھلے رہتے اور اپنی پیداوار کو بڑھاتے تاکہ کرونا وائرس سے اور مظبوط طریقے سے لڑا جاسکے
اس بات کی کئی مثالیں ہیں کہ سماجی دوری (سوشل ڈسٹنس) 'لاک ڈاؤن جس کی ایک شکل ہے' کورونا وائرس کے پھیلاؤ پر روک لگانے میں موثر ثابت ہوئی ہے اور عمل آوری میں خامیاں موجود ہو نے کے باوجود لاک ڈاؤن کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے میں موثر ثابت ہوگا۔
یہ سوچنا احمقانہ ہوگا کہ 'ملک میں تین ہفتہ طویل لاک ڈاؤن سے ہی کورونا وائرس کا خاتمہ ہوگا لیکن لاک ڈاؤن کی وجہ سے جو مہلت ملی ہے اس کو ٹیسٹنگ کی سہولیات کو بڑھانے، متاثرہ افراد کا پتہ لگانے، تنہائی اور طبی نگہداشت جس میں ونٹیلیٹروں کا حصول آئی سی یو اور غیر آئی سی یو بیڈز کی تعداد بڑھانے کے استعمال میں لانا چاہیے'۔
خصوصی کوشش کی جانی چاہیے کہ ڈاکڑز اور دیگر طبی عملے جو کورونا وائرس سے لڑی جانی والی اس لڑائی میں پہلی صف کے سپاہی ہیں، ان کو بہتر حفاظتی کپڑے اور طبی آلات مہیا کیے جائیں۔ اس کے علاوہ عام لوگوں کے لیے ماسک فراہم کیے جانے چاہیے۔
گرچہ ماسکوں کے موثر ہونے کے بارے میں متضاد دعوے کیے جا رہے ہیں۔ چونکہ یہ ناممکن ہے کہ ہر ایک شہری کا ٹیسٹ کیا جائے لیکن وہ افراد جن میں اس بیماری کی علامت نہیں ہے لیکن انہیں انفیکشن ہے وہ بھی وائرس کو پھیلا سکتے ہیں اس لیے لوگوں کو اس وائرس سے بچایا جا سکتا ہے کہ اگر وہ ماسک پہن لیں جیسا ہم مشرقی ایشیا میں دیکھ رہے ہیں۔
بھارت میں جاری لاک ڈاؤن اور مستقبل کے لاک ڈاؤنز کی معاشی قیمت بھاری ہونے والی ہے جس کا سب سے بڑا بوجھ ملک کے غریبوں پر پڑنے والا ہے۔ لیکن یہ بوجھ چھوٹا محسوس ہوگا اگر بھارت میں وائرس بڑے پیمانے پر پھیل جائے گا۔
بھارت میں غریب ساتھ ساتھ ایک غیر صحت مند ماحول میں رہتے ہیں ساتھ ہی ان کی قوت مدافعت کمزور ہوتی ہے جبکہ ان میں بیماری کی شرح زیادہ ہوتی ہے۔ ان کے پاس اتنے مالی وسائی نہیں ہیں کہ وہ خود کا کورونا وائرس کا ٹیسٹ یا اس سے متاثر ہونے کی صورت میں علاج کراسکیں۔
اس بات کی رپورٹیں مل رہی ہیں کہ بھارت میں نجی لیباریٹریاں کورونا وائرس ٹیسٹ کے لیے ہزاروں روپئے چارج وصول کرتے ہیں۔ حکومت کو غریبوں کے سرکاری اور نجی ہسپتالوں میں بھی ٹیسٹ اور ان کے علاج پر آرہے اخراجات کو برادشت کرنا چاہئے تاکہ کسی علامت کی صورت میں ان کے ٹیسٹ کے لیے حوصلہ افزائی کی جاسکے۔
غریبوں کی تنگ رہائشی سہولیات کو دھیان میں رکھتے ہوئے ان کا تنہائی(سماجی دوری) میں رہنے کا آپشن حقیقت پسندانہ نہیں ہے اس لیے حکومت کے لیے لازمی بن جاتا ہے کہ وہ ان کے لیے کسی متبادل کا انتظام کرے ۔
یہ اہم ہے کہ جب کرونا وائرس کے کیسوں میں اضافہ ہو جائے گا اور طبی نظام پر بوجھ پڑے گا جیسا کہ اٹلی، اسپین، فرانس اور امریکہ میں ہوا تو پھر ہر کسی کو اپنی باری کا انتظار کرنا پڑے گا۔ جیسا اب یہ بات سامنے آئی کہ 'اٹلی میں ڈاکٹروں کو یہ انتہائی مشکل فیصلہ لینا پڑا کہ وہ کس کو بچائیں اور کس کو نہیں جبکہ وہاں مریض قطار در قطار کھڑے تھے اور ڈاکٹروں کو محدود طبی وسائل کا سامنا تھا'۔
ڈاکٹروں نے اس اخلاقی راہنما خطوط پر عمل کیا کہ بظاہر جن مریضوں کے پاس زندہ رہنے کے زیادہ سال باقی تھے یا دوسرے الفاظ میں جو مریض زیادہ عمر کے نہیں تھے اور جو صحت مند بھی تھے انہیں ترجیح دی گئی۔
جو بھارت کے زمینی حقائق سے واقف ہیں ان کے لیے اس بات کا اندازہ لگانا آسان ہے کہ ایسی صورتحال میں یہاں ڈاکٹر کس کو بچائیں گے۔اس بات کا زیادہ امکان ہے کہ ایک 30 سالہ غریب کے مقابلے میں 75 سالہ امیر شخص کو طبی ترجیح ملے گی۔
ایسی صورتحال کو روکنے کے لیے ایک ہی راستہ ہے اور وہ ہے انڈئن کونسل فار میڈیکل ریسرچ (آئی سی ایم آر) سے مشاورت کرکے اخلاقی راہنما خطوط کو وضع کیا جائے تاکہ ڈاکٹروں کے پاس ایسی کسی صورتحال میں کوئی غیر اخلاقی فیصلہ لینے کا اختیار نہ رہے۔
اس سے نہ صرف ڈاکٹروں بلکہ ہسپتال انتظامیہ جن پر کام کا زبردست دباؤ ہو گا کو مریضوں اور ان کے رشتہ داروں کے اضافی دباؤ سے بچانے میں مدد ملے گی ۔جب طبی نگہداشت ہوگی تو غریب ہمیں قطار کے آخر میں ملیں گے۔ ہم یہ نہیں چاہتے ہیں کہ ڈاکٹروں اور ہسپتال انتظامیہ روپے پیسے ادا کرنے کی استطاعت پر یہ فیصلہ لیں کہ کس مریض کو وینٹی لیٹر پر رکھنا ہے اور کس کو نہیں۔
ایسے میں حکومت کے لیے یہ لازمی بن جاتا ہے وہ لاک ڈاؤن کی مہلت کے بارے میں اخلاقی راہنما خطوط وضع کرے تا کہ ایک ایسی صورتحال میں جب طبی اداروں پر بوجھ بڑھ جائے گا تب ڈاکٹر اس بات کا فیصلہ کریں کہ علاج کے حوالے سے کس کو ترجیح دیں۔
مضمون نگار پروفیسر پریا رنجن شاہ امریکہ کی معروف یونیورسٹی، یونیورسٹی آف کیلیفورنیا میں شعبۂ معاشیات کے پروفیسر ہیں۔