یہ حقیقت ہے کہ جب بھی آفات سماوی نازل ہوتی ہیں تو قوموں کی معیشت متاثر ہوجاتی ہے اور سماجی تانا بانا بکھر کر رہ جاتا ہے۔موسمی بحران انسانی معاشرے کو بہت حد تک متاثر کرتا ہے۔ اس ضمن میں اقوام متحدہ کی’ورلڈ مائیگریشن رپورٹ 2020‘ میں کئی چونکا دینے والے حقائق سامنے لائے گئے ہیں۔اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سال 2018ء تک 148ممالک میں 2.8کروڑ لوگ نقل مکانی پر مجبورہوگئے ہیں۔ نقل مکانی کے اس عمل میں متاثرین کی رہی سہی جمع پونچی ختم ہوگئی ۔ ان میں سے 61فیصدلوگ موسمی تغیر اور آفات سماوی کی وجہ سے بے گھر ہوگئے ہیں۔جبکہ 39فیصدفرقہ وارانہ تشدد اور تنازعات کی وجہ سے ہجرت پر مجبور ہوگئے ہیں۔اس رپورٹ میں خاص طور پر یہ بات بتائی گئی ہے کہ موسمی تغیر کی وجہ سے بے گھر ہونے والوں کی تعداد میں خاص طور سے گزشتہ پانچ سال کے دوران اضافہ ہوا ہے۔
بھارت میں بھی تیزی کے ساتھ موسمی تغیر ہورہا ہے۔ فضائی آلودگی کی وجہ سے لوگ اپنے گھروں سے باہر نہیں نکل پاتے ہیں۔ شدید بارشوں کے واقعات رونما ہورہے ہیں۔ سیلاب کی وجہ سے قصبے اور شہروں کے شہر تباہ ہورہے ہیں۔ یہ سارے واقعات لوگوں کو ہجرت پر مجبور کردیتے ہیں۔ دوسری جانب بنگلہ دیش، انڈونیشیا، ملیشیاء اور بھارت جیسے ممالک کی آبادیوں میں مسلسل اضافے کے ساتھ ساتھ غربت بھی بڑھتی جارہی ہے۔بے روزگاری کی شرح میں اضافہ ہورہا ہے۔ بنیادی سہولیات کی شدید قلت ہے۔ ان مسائل کے ساتھ ساتھ ماحولیات پر بڑھتی ہوئی آبادی کے منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں۔ اس سے قبل موسمی تغیر تباہی مچادے ، عوام اور حکومت کو خوب ِ غفلت سے بیدار ہونا چاہیے۔
گلیشر تیزی سے پگلنے کی وجہ سے سطح سمندر خطرناک حد تک بڑھ رہی ہے۔ اب سرما کے دوران درجہ حرارت معمول سے زیادہ ہوتا ہے۔ ہم جس ہوا کی سانس لے رہے ہیں، وہ زہر آلود ہے۔سرما کے دوران گہری دھند کی وجہ سے دلی کے باشندے گھروں سے باہر نکلنے میں خوف محسوس کرتے تھے۔تامل ناڈو ، کرناٹک اور کیرلا میں سیلابوں کا آنا اب ایک معمول بنتا جارہا ہے۔ بنیادی سہولیات کی عدم دستیابی کی وجہ سے روزمرہ کی زندگی متاثر ہورہی ہے۔ناسازگار موسمی حالات نے لوگوں کو بے گھر بنادیا ہے۔
اقوام متحدہ نے ممبر ممالک سے کہا ہے کہ وہ موسم کی تباہی کے نتیجے میں ہجرت کرنے والے لوگوں کو پناہ دینے سے انکار نہ کریں۔موسم کی تباہی خاص طور سے ایشیاء میں زیادہ دیکھنے کو ملتی ہے۔اقوام متحدہ کی رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ بنگلہ دیش ، پاکستان اور بھارت تباہی کی خطرناک رسک سے دوچار ہیں اور ان ممالک میں آبادی کا ایک بڑا حصہ بے گھر ہوسکتا ہے۔
سال 2018ء میں بھارت میں شدید بارشوں اور سائیکلون کی وجہ سے 20.7لاکھ لوگ بے گھر ہوگئے ہیں۔تازہ رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ بالخصوص ایشیا پیسفک خطے میں سطح سمندر میں خطرناک حد تک اضافہ ہورہا ہے۔اگر سمندر کی سطح آب میں مزید ایک میٹر کا اضافہ ہوگا تو اس کے نتیجے میں مشرقی ایشیا اور پیسفک میں 3.70کروڑلوگ اپنی پناہ گاہ کھو بیٹھیں گے اوراگر سمندروں کی سطح آب میں دو میٹر کا اضافہ ہوا تو اسکی وجہ سے بے گھر ہونے والے اس آبادی میں دو گنا اضافہ ہوگا۔رپورٹ کے مطابق ایشیا پیسفک خطے سمندروں کے قریب آباد شہروں، بشمول ممبئی ، بینکاک ، ڈجکراتا، ہو چی منہا اور گونگزو تباہی کے دہانے پر ہیں۔
تمام ممالک کو فوری طور پر ان اقدمات کو روکنا پڑے گا ، جن کی وجہ سے ماحولیاتی بحران پیدا ہوجاتا ہے۔ یہ بات ابھی وثوق سے نہیں کہی جاسکتی ہے کہ آیا اقوا متحدہ کی قرارداد کے عین مطابق موسمی تباہی کے وجہ سے ہجرت پر مجبور لوگوں کو پناہ ملے گی یا نہیں۔یعنی اس قرارداد کو عملایا بھی جائے گا یا نہیں۔
پانچ سال قبل کریباتی سے تعلق رکھنے والے ایک شخص جس کا نام ٹٹیوٹا تھا، اس نے خود کو موسمیاتی تغیر سے متاثرہ مہاجر قرار دیا تھا۔ اس نے پناہ حاصل کرنے کے لئے نیوزی لینڈ کا انتخاب کیا تھا۔اس نے کہا تھا کہ وہ پر تشدد واقعات، ماحولیاتی تباہی، فصلوں کی بربادی اور آبی پناہ گاہوں کی آلودگی کی وجہ سے ہجرت کررہا ہے۔اپنی درخواست میں اس نے کہا تھا کہ وہ کسی محفوظ جگہ پر پناہ لینا چاہتا ہے۔ لیکن اس کی درخواست نیوزی لینڈ کی حکومت نے مسترد کردی تھی۔اس کے بعد اُس نے اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کونسل سے رجوع کیا۔یہاں اس کی درخواست یہ کہہ کر مسترد کردی گئی کہ کریباتی میں رہائش کے لئے مناسب ماحول میسر ہے۔ یہ پہلا واقعہ تھا جس میں کسی رفیو جی نے اقوام متحدہ سے مداخلت کے لئے رجوع کیا۔
اس واقعہ کے تناظر میں اقوام متحدہ نے 21جنوری 2020کو متذکرہ اہم اعلان کیا، جو تاحال نافذ نہیں ہوا ہے۔ اس اعلان سے قبل جرمنی نے بھی موسمیاتی بحران کی وجہ سے ہجرت کرنے والے ایک شخص کی درخواست مسترد کردی تھی۔اس صورتحال میں یہ واضح کرنا ضروری بن گیا ہے کہ موسمی بحران سے متاثرہ مہاجر کس کومانا جائے گا۔جس انداز میں اس وقت موسمی بحران کی وجہ سے انسانی زندگی متاثر ہورہی ہیں، اس کی ماضی میں مثالیں نہیں ملتی ہیں۔ ماحولیات دوست پالیسیاں مرتب کرنا اور بہتری لانا ذمہ دار حکومتوں کا طرز عمل ہوتا ہے۔شہریوں اور حکومتوں کو مستحکم ماحولیات کے لئے ملک جل کر کام کرنا ہوگا۔ موسمیاتی بحران کو قابو کرنے کیلئے اقدمات کرنے کی ضرورت ہے۔