حکمراں جماعت بی جے پی نے اپنے ارکان پارلیمان کو تین لائن کا وہیپ جاری کیا ہے اس وہیپ کے مطابق بی جے پی کے سبھی ارکان پارلیمان کو پیر تا بدھ ایوان میں حاضر رہنا ہوگا۔
مرکزی کابینہ نے اس بل کو پہلے ہی منظور کر لیا ہے اور آج وزیر داخلہ امت شاہ نے حزب اختلاف کی جماعتوں کے ارکان کے ہنگامہ کے دوران لوک سبھا میں بل کو پیش کردیا۔ ووٹنگ کے دوران بل پر بحث کے لیے 293 ارکان پارلیمان نے رضامندی ظاہر کی جبکہ 82 ارکان نے اس بل کو پیش کرنے پر مخالفت کی۔
اس بل کے تحت ہندو، عیسائی، سکھ، جین، بدھ اور پارسی، چھ طبقات کے لوگوں کو بھارتی شہریت دی جائے گی۔ یہ بل موجودہ قوانین میں ترمیم کرے گا تاکہ منتخب کر دہ طبقے سے غیر قانونی تارکین وطن کو چھوٹ مل سکے، چونکہ مسلمان اس بل میں شامل نہیں ہیں۔
لہٰذا حزب اختلاف نے اس بل پر تنقید کی ہے کہ وہ بھارتی آئین میں درج سیکولر اصولوں کے خلاف ہے۔
شہریت ترمیمی بل لوک سبھا میں پیش شمال مشرقی ریاست آسام میں مختلف تنظیموں کی جانب سے اس بل کی زبردست مخلافت کی جا رہی ہے اور آج متعدد تنظیموں کی جانب سے آج بند کی کال دی ہے۔
شہریت ترمیمی بل 2019 میں افغانستان،پاکستان اور بنگلہ دیش سے مذہب کی بنیادپر استحصال کی وجہ سے ہندوستان میں پناہ لینے والے ہندو،سکھ،عیسائی ،پارسی ،بودھ اورجین طبقےکے لوگوں کو شہریت دینے کا التزام کیا گیا ہے۔
کانگریس، ترنمول کانگریس نیشنلسٹ کانگریس پارٹی،سماجوادی پارٹی،انڈین یونین مسلم لیگ وغیرہ اپوزیشن پارٹیوں نے اس بل کو مذہب کی بنیاد پر شہریت طے کرکے آئین کے بنیادی مقصد کو مجروح کرنے کا الزام لگایا اور کہا کہ اس سے آئین کے آرٹیکل پانچ ،دس،14،15اور 26کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔
وزیر داخلہ امت شاہ نے اس کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ اس سے آئین کے کسی بھی آرٹیکل کی خلاف ورزی نہیں ہوئی ہے۔ان تین ملکوں میں اسلام مذہب ہے اور مذہب کی بنیاد پر استحصال غیر اسلامی طبقوں کا ہی ہوتا آیا ہے۔اس لئے ایسے چھ طبقوں کو ’عقلی درجہ بندی ‘ کے تحت شہریت دینے کا التزام کیاگیا ہے جبکہ مسلم طبقے کے لوگ حالیہ ضابطون کے مطابق ہی شہریت کی درخواست کرسکیں گے اور ان پر اسی کے مطابق غور بھی کیاجائےگا۔
وزیرداخلہ کے جواب سے اپوزیشن مطمئن نہیں ہوئی اور اس نے بل پیش کرنے کی تجویز پر ووٹوں کی تقسیم کا مطالبہ کیا جسے 82کے مقابلے 293ووٹوں سے منظور کرلیاگیا اور مسٹر شاہ نے بل پیش کیا۔
اس بل کی ملک کی شمال مشرقی ریاستوں میں مخالفت کی جارہی ہے۔ ان پر تشویش یہ ہے کہ بنگلہ دیش کے ہندوؤں کی ایک بڑی تعداد کو شہریت دی جاسکتی ہے۔