اردو

urdu

ETV Bharat / bharat

مچھلیوں کی پیداوار، معاشی ترقی کی ضامن - مچھلیوں کی پیداوار، معاشی ترقی کی ضامن

بھارت میں ماہی گیری کا شعبہ گزشتہ چند دہائیوں سے متواتر ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ بھارت میں قومی شاہراہیں معرض وجود میں آنے سے پہلے ہی میٹھے پانی میں مچھلیوں کی پیداوار شروع ہوگئی تھی۔اس کاشت کا ایکوا کلچر کے نام سے جانا جاتا ہے۔

مچھلیوں کی پیداوار، معاشی ترقی کی ضامن

By

Published : Nov 1, 2019, 3:24 PM IST

کسانوں، صنعت کاروں اور اولین ایکوا سائنسدانوں کی شراکت اور سرکاری مراعات کے ساتھ ایکوا کلچر کو مزید تقویت ملی۔

آندھرا پردیش میں کولیرو ندی بیسن ملک میں میٹھے پانی میں ایکوا کاشتکاری کی سب سے بڑی صنعت ہے۔آبی زراعت واحد صنعت ہے جو زراعت اور اس سے متعلقہ صنعتوں کے مقابلے میں فی ہیکٹر 25 افراد کو ملازمت دیتی ہے۔

اگرچہ یہ صنعت ترقی کر رہی ہے لیکن اس صنعت میں معاوضے میں کمی، برف اور سرد ذخائر (کولڈ اسٹورز) کی عدم دستیابی جیسے بہت سارے چیلنجز کا سامنا بھی ہے۔ یہ تمام چیلنجز مجموعی پیداوار میں 10 فیصد نقصان کا سبب بن رہے ہیں۔

مچھلی اور جھینگے کی پیداوار میں کوالٹی بیج کی انتہائی اہمیت ہے۔ اگرچہ مچھلی کے بیجوں کی نشوونما کے لئے متعدد ہدایات دی گئی ہیں لیکن اس پر عمل درآمد کم ہورہا ہے۔۔

محکمہ فشریز کی رہنمائی میں ضلع گنٹور کے ضلع ٹینالی میں فش فرائی پروڈکشن سینٹر قائم کیے گیے تھے۔کہا جاتا ہے کہ اس مرکز سے حاصل ہونے والے منافع سے پورے محکمہ کے ملازمین کی تنخواہیں ادا کی گئیں۔

اس مرکز کو مچھلی کاروبار میں اہمیت رکھنے والی ریاست مغربی بنگال پر بھی سبقت حاصل ہوگئی۔ نجی کاروباریوں نے یہ سنبقت بنانے میں اہم رول ادا کیا۔

تنگا بھدر بیسن میں فش فارمنگ سنٹر میں بیجوں کی کوالٹی تیار کی جاتی ہے۔ یہ سنٹر کرناٹک حکومت اور محکمہ فشریز کے مشترکہ تعاون سے چلائے جاتے ہیں۔

کرناٹک کے سنٹر میں ایک لاکھ انڈوں کی قیمت ایک ہزار روپیہ ہے جبکہ آندھرا پردیش سنٹر اسی مقدار کو 200 روپے میں فروخت کررہا ہے۔

کرناٹک حکومت کو صرف تنگا بھدرا مرکز سے 40 لاکھ روپے کی آمدنی حاصل ہے۔ ظاہر ہے کہ کاروباری افراد صرف منافع بخش ذرائع کو ہی ترجیح دیتے ہیں۔

فی الحال دو جگہوں پر مچھلی کی پیداوار سب سے زیادہ ہے۔ ایک مغربی بنگال کے گنگا بیسن میں ہے اور دوسرا آندھرا پردیش کے کوللیرو کے کرشنا گوداوری بیسن میں۔

دونوں جگہوں سے 40سے80 فیصد پیداوار دوسری ریاستوں میں برآمد کی جاتی ہے۔ سپلائی چین طویل ہونے کے سبب برآمداتی عمل میں بہت سی مشکلات کا بھی سامنہ کرنا پڑتا ہے۔

علاقائی مچھلی کی اقسام جیسے کٹلا ، روہو اور کارپ سال میں صرف دو بار بچہ کشی کرتے ہیں۔ معیاری بیج حاصل کرنے کے لئے سازگار حالات میں اسٹاک کی دیکھ بھال ضروری ہے۔

ان مراکز میں انڈوں سے انتہائی چھوٹی مچھلیاں بنتی ہیں جنہیں معیاری جیچ کے طور پر فروخت کیا جاتا ہے۔ یہ مچھلیاں سائز کے اعتبار سے بکتی ہیں۔ نیشنل فشریز ڈویلپمنٹ بورڈ (این ایف ڈی بی) نے 2007 میں 100 ملی میٹر کی لمبائی کی قیمت ایک روپے رکھی تھی اور 2014 میں یہ بڑھ کر 2.50 روپے ہوگئی تھی جیسا کہ انڈین کونسل برائے زرعی تحقیق (آئی سی اے آر) اور سنٹرل انسٹٹیوٹ آف فرش واٹر آبی زراعت (سی آئی ایف اے) نے تجویز کیا تھا۔

اگرچہ مزدوری کی اجرت، فیڈ اور لیز کی قیمتوں میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے لیکن آندھرا پردیش کے محکمہ فشریز میں پیداوار 1999 کی قیمتوں کے مطابق فروخت کی جارہی ہے۔

ایکوا فارمینگ جن مسائل کا سامنا کر رہی ہے ان سے نمٹنے کی اشد ضرورت ہے۔ مچھلی کے فارموں اور نرسری تالابوں میں گوداوری کا پانی بیک وقت چھوڑنا چاہئے۔ مغربی بنگال اس طریقے کو بروئے کار لا کر مچھلی کی اعلیٰ پیداوار حاصل کررہا ہے۔

اگرچہ مچھلی کی پیداوار میں آندھرا پردیش پہلے نمبر پر ہے لیکن بیجوں کے معیار کی وجہ سے مغربی بنگال کو ترجیح حاصل ہے۔

چونکہ ایکوا کی پیداوار کو ذخیرہ نہیں کیا جاسکتا ہے، اس لئے کاشتکار اپنی فصل کو کم قیمتوں پر فروخت کررہے ہیں۔

اگر مچھلی کی دستیابی کے بارے میں معلومات کو انٹرنیٹ پر اپڈیٹ کیا جائے تو ایکوا کلچر سے جڑےکسانوں کو فائدہ ہوگا۔ تکنیکی جدتوں کی کمی، خاص طور پران ماہرین کی کمی جو مچھلیوں کی غذا اور پانی کے معیار پر رائے زنی کرتے ہوں، اس شعبے کی ترقی میں بڑی رکاوٹوں کے طور حائل ہورہی ہیں۔

فش فارم کے مزدوروں کو اصل ماہرین کے متبدل استعمال کیا جارہا ہے۔ اگر فشریز، سائنس یا اس سے وابستہ کورسز کے طلبا کو مناسب تربیت دی جائے تو اس چیلنج سے نمٹا جاسکتا ہے۔

آندھرا پردیش میں کل ایکوا کی پیداوار کا 90 فیصد دیگر ریاستوں کو فراہم کیا جاتا ہے۔ نئی تشکیل دی گئی ریاست تلنگانہ نے بلیو انقلاب (ایکوا فارمینگ) میں اپنی شناخت بنالی ہے۔ لیکن تلگو ریاستوں میں فی کس مچھلی کی فروخت کم ہے جس کی بنیادی وجہ لوگوں کے ذہن میں مچھلی کی منڈی کی غیر صحتمند شبیہہ ہے۔

اگر بڑے شہروں اور قصبوں میں مچھلیوں کی صاف ستھری منڈیاں قائم ہوجائیں تو مچھلی کے گوشت کی فروخت میں اضافہ کیا جاسکتا ہے۔ مقامی بازار صارفین کی ضروریات کے مساوی نہیں ہیں۔

بڑے شہروں میں لوگ عام طور پر کھانا کھانے یا آن لائن آرڈر دینے کو ترجیح دیتے ہیں۔ مقامی فشریز کو لازمی ہے کہ وہ اس صورتحال سے فائدہ اٹھائیں اور سمندری غذا کے پکوان لوگوں کے گھر میں فراہم کریں۔ مارکیٹنگ کے مزید مواقع پیدا کرنے کے لئے سی فوڈ فیوسٹول یا سمندری غذا کے تہواروں کا انعقاد کیا جاسکتا ہے۔

کوالٹی مچھلی برآمد کو ممکن بنانے کے لئے مراعات اور سبسڈی دی جانی چاہئے۔

ABOUT THE AUTHOR

...view details