شاہین باغ میں قومی شہریت قانون، قومی شہری رجسٹر اور قومی آبادی رجسٹر کے خلاف جامعہ ملیہ اسلامیہ، لائبریری میں گھس کر طلبہ پر کی گئی پولیس کی وحشیانہ کارروائی، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں طلبہ کے ساتھ بربریت کے خلاف 16دسمبر سے خواتین دن رات کا مظاہرہ کر رہی ہیں جس کی حمایت میں پورے ملک سے سرکردہ شخصیات آرہی ہیں اور وہاں بارش اور سرد موسم کے باوجود خواتین کے جوش و خروش اور حوصلے میں کوئی کمی نہیں آئی ہے۔ وہاں انڈیا گیٹ بھی ہیں اور ہندوستان کا نقشہ بھی ہے اور ہندوستان کی گنگا جمنی تہذیب کا حقیقی نظارہ یہاں دیکھنے کو ملتا ہے۔ مختلف چھوٹے چھوٹے گروپ میں بچے بچیاں، اسکول و کالج کے لڑکے لڑکیاں اس سیاہ قانون کے خلاف آواز بلند کرتے ہوئے آزادی کے حق میں نعرے لگاتے نظر آرہے ہیں۔
اس وقت پورا جامعہ نگر مجسم احتجاج نظر آرہا ہے۔ اسکول سے آتے ہوئے بچے بھی اس سیاہ قانون کے نعرے لگاتے ہوئے گھرآتے دکھائی دیتے ہیں۔ شاہین باغ کے خواتین میں ہندی میڈیا کی جھوٹی رپورٹ کے سلسلے میں کافی ناراضگی ہے۔ احتجاج کرنے والی خواتین کا کہنا ہے کہ بی جے پی آئی ٹی سیل کی یہ کارستانی ہے۔ وہ لوگ خواتین کی آواز سے خوف زدہ ہیں اور اس لئے گھٹیا حرکت پر اترآئے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ حکومت کو مظاہرہ کا سامنا کرنا چاہئے چہ جائے کہ وہ مظاہرہ کے بارے میں غلط باتیں کر رہی ہے۔
جامعہ ملیہ اسلامیہ میں طلبہ اور عام لوگوں نے دھرنے کی مدت میں اضافہ کرتے ہوئے اسے اب چوبیس گھنٹے کا کردیا ہے۔ قومی شہرے، این آر سی، این پی آر کے خلاف اہم شخصیات میں آنا مسلسل جاری ہے۔ جامعہ کے احتجاج میں یہ الگ ہی رنگ نظر آتا ہے۔ ایک لائبریری نظر آرہی ہے تو دوسری حراستی کیمپ بھی ہے، پولیس بربریت کی تصویریں آویزاں کی گئی ہیں۔ ہندو، مسلم، سکھ، عیسائی کے علامات نظر آتے ہیں۔ یہاں بھی پورا ہندوستان نظر آتا ہے اور ہندوستان کی ہر زبان میں نعرے لکھے نظر آتے ہیں۔ اس وقت جامعہ ملیہ اسلامیہ میں جنگ آزادی کے دور کی جھلک نظرآتی ہے۔
جامع مسجد میں رات میں خواتین کا دھرنا شروع ہوتا ہے اور اہم لوگ اس میں تقریر کرتے ہیں۔ بغیر مذہب و ملت اور علاقے سب لوگ شریک ہوتے ہیں۔ نیشنل موومنٹ فرنٹ کے جنرل سکریٹری ڈاکٹر سوربھ واجپئی نے اس موقع پر جامع مسجد کی تاریخ کو یاد کرتے ہوئے کہاکہ دہلی کی جامع مسجد کو تین طرح یاد کیا جاسکتا ہے۔ پہلا یہ 1857بہادر شاہ کی قیادت میں فوج نے لڑائی لڑی ہے اور جامع مسجد اس کا گواہ ہے اور دوسرے حکیم اجمل خاں کے والد حکیم محمود خاں نے پرانی میں دہلی میں ہندو مسلم کے مابین ہونے والے جھگڑے کے سامنے آگئے اور دونوں کے درمیان اتحاد قائم کیا اور تیسرا مولانا آزاد کی وہ تقریر ہے جس کی وجہ سے یہاں سے مسلمان پاکستان جانے سے رک گئے۔ انہوں نے کہاکہ ہماری لڑائی (مولانا آزاد، نہرو اور گاندھی کی) ساور کر اور جناح کے نظریہ سے ہے۔ اس وقت ماحول بنایا جارہاہے وہ دراصل بٹوارے کی ادھوری کہانی کو پورا کرنا چاہتے ہیں جسے ہمیں کسی قیمت پر نہیں ہونے دینا ہے۔