اردو

urdu

ETV Bharat / bharat

بجٹ 2020: صحیح مصرف پر زیادہ خرچ کی ضرورت - ریزرو بینک آف انڈیا (آر بی آئی)

یکم فروری 2020 کو مرکزی وزیرخزانہ نرملا سیتا رمن کی جانب سے پیش کیے جانے والے بجٹ میں کیا خاص ہوگا؟ پیش ہے ایچ این بی گرھوال سنٹرل یونیورسٹی (اترکھنڈ) کے اسسٹنٹ پروفیسراور ماہرمعاشیات مہندر بابو کرووا کا تجزیہ:

Budget 2020 Spend More & Spend It Right
بجٹ 2020: صحیح مصرف پر زیادہ خرچ کی ضرورت

By

Published : Jan 24, 2020, 7:21 AM IST

Updated : Feb 18, 2020, 5:00 AM IST

ماہر معاشیات مہندر بابو کرووا نے بتایا کہ گرتی ہوئی معاشی نمو کو بحال کرنے کے لئے حکومت کی طرف سے اخراجات کو بڑھانا کیوں ضروری ہے؟

مرکزی وزیرخزانہ نرملا سیتا رمن 2019 کا بجٹ پیش کرنے کے بعد۔ اس بار اس لال بستے میں کیا خاص ہوگا؟

بھارت میں چل رہی معاشی سست روی کے درمیان یکم فروری 2020 کو وزیر خزانہ نرملا سیتا رمن ملک کے نامور صنعتکاروں اور دیگر ماہرین اقتصادیات کے ساتھ مشترکہ طور پر بجٹ تقریر پیش کرئے گی۔ جس میں موجودہ معاشی بحران کے سلسلے میں حل پیشں کیے جانے کی امید ہے۔

مجموعی گھریلو پیداور( جی ڈی پی) میں زرعی شعبے کا اچھا خاصی کردار ہوتا ہے


نریندر مودی کے دورسرے دور حکومت میں یکم فروری 2020 کو مرکزی وزیر خزانہ نرملا سیتا رمن اپنا پہلا مکمل بجٹ پیش کریں گی۔

کروڑ پتی سے لے کر عام آدمی تک، کشمیر سے کنیاکماری تک پورے ملک کی نگاہ اس امید کے ساتھ بجٹ تقریر پر ہوگی کہ قومی سطح کے اس بجٹ میں کیا نیا ہوگا اور عام آدمی کو کیسے راحت ملے گی؟

لوگوں کی آمدنی کے ذرائع بڑھیں گے تو طلب میں بھی اضافہ ہوگا

بھارتی معیشت گزشتہ گیارہ برسوں میں اپنی سست رفتار کیفیت کی آخری حد تک پہنچ چکی ہے۔ معاشی نمو میں 'زورال' ایسا آرہا ہے کہ اس میں بار بار 'ترقی' ہوتی جارہی ہے۔

بے روزگاری کی شرح چار دہائیوں سے زیادہ کی بلند ترین سطح پر ہے اور اشیا کی قیمتیں آسمان کی بلندیو ں کو چھو رہی ہیں۔

پیداوری شعبہ (مینوفیکچرنگ سیکٹر) میں نیم یا کم ہنر مند مزدور قوت کی بڑی تعداد کو روزگار کے مواقع فراہم کیے جاسکتے ہیں، لیکن معاشی مندی کے سبب یہ ممکن نہیں ہے۔

ورلڈ اکنامک فورم کی ایک رپورٹ کے مطابق سنہ 2019 میں مجموعی گھریلو پیداور( جی ڈی پی) صرف 6.3 فیصد ہی تھی۔ (تصویر: ڈبلیو ای ایف)

دیہی ترقی کے لئے زراعت ایک اہم اور بنیای عنصر ہے، مگر اس شعبے میں گزشتہ برسوں کے مقابلے 3 فیصد سے بھی کم ترقی ہوئی ہے۔

ڈیووس میں ورلڈ اکنامک فورم سربراہی اجلاس کی ضمنی خطوط پر حال ہی میں جاری کردہ ورلڈ اکنامک آؤٹ لک، گلوبل سوشل موبلٹی انڈیکس اور آکسفیم رپورٹ سے واضح طور پر اس بات کی نشاندہی ہوتی ہے کہ بھارت میں دولت پیدا کرنے کی شرح سست روی کا شکار ہے۔ دولت مند اور غریب لوگوں کی تقسیم کو ختم کرنے کے لئے ٹھوس اقدامات اٹھانا ازحد ضروری ہے۔

راستہ کیا ہے؟


اس سلسلے میں کئی راستے ہوسکتے ہیں، ان میں سے ایک بڑے پیمانے پر سرکاری اخراجات بہترین حل ہے۔

موجودہ معاشی سست روی کی بڑی وجہ طلب سے متعلق معاملات (ڈیمانڈ سائڈ ایشوز) کی بجائے رسد (سپلائی) سے وابستہ رکاوٹوٹیں ہے۔

معاشی سست روی کے خاتمہ اور زرعت کے شعبے میں پیداور کے اضافے کے لیے نئے طریقے اور جدید ٹکنز کا استعمال ضروری ہے

دوسرے الفاظ میں جب بازار میں کافی سامان اور خدمات دستیاب ہیں، لیکن لوگوں کی خریداری قوت میں اضافہ نہ ہوتو وہ حالیہ سست روی کا باعث بن سکتا ہے۔

درحقیقت ریزرو بینک آف انڈیا (آر بی آئی) کی ایک حالیہ رپورٹ میں بھی صارفین کے گھٹتے ہوئے اعتماد، کاروباری ساکھ اور صنعتوں کے ذریعہ نئی اشیا کی عدم فراہمی کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ طلب میں کمی واقع ہوئی ہے۔ لہذا اس کا حل بڑی حد تک معیشت میں ضروریات کے مطابق طلب کو بحال کرنے میں مضمر ہے۔

سنہ 2019 میں ملک میں بینکوں کو کنٹرول کرنے والے آر بی آئی نے اہمسود کی شرح (ریپو ریٹ) کو 135 بنیادی پوائنٹز یا 1.35٪ تک کم کرکے اس اندازے کے ساتھ اپنا فائدہ اٹھایا ہے کہ وہ مکانات، کاروں اور کم شرح سود کے قرضوں سے وابستہ ہے۔

بدقسمتی سے ابھی تک اس کے مطلوبہ نتائج برآمد نہیں ہوئے ہیں۔ شاید یہ ایک طویل وقفہ کے ساتھ نتائج برآمد کرئے گا۔

صنعتی شعبے میں گزشتہ دس برسوں سے تشفی بخش کارکردگی نہیں رہی

اس طرح اس وقت یہ حکمت اپنانی ہوگی کہ معاشی سست روی میں کمی اور اس کے خاتمے کے لئے آئندہ بجٹ (2020) میں مناسب اصلاحات کئے جائیں۔ اس کے علاوہ مختلف شعبے جات میں مخصوص عوامی سرمایہ کاری کی جاسکتی ہے اور اخراجات کو وقتی طور پر کم کیا جاسکتا ہے۔

مالی خسارے کا مفروضہ:


آسان الفاظ میںمالی خسارہ (Fiscal Deficit) ایک مخصوص مالی برس میں حکومت کو درکار قرض کی پوری نشاندہی کرتا ہے۔ یہ آمدنی اور اخراجات میں فرق کو بھی واضح کرتا ہے۔

ایسے دلائل موجود ہیں کہ زیادہ سے زیادہ سرکاری اخراجات مالی خسارے کو اور بڑھا سکتے ہیں۔ جو کہ قیمتوں میں اضافے کا سبب بھی بن سکتا ہے، اور اس کے نتیجے میں سست نمو کا ایک بڑا مسئلہ درپیش ہو گا۔

اس تناظر میں یہ بات قابل ذکر ہے کہ حکومت کی جانب سے کثیر رقمی اخراجات، اشیا و خدمات کی قیمتوں میں اضافے کی صورت حال کا باعث بن سکتے ہیں۔

جب صلاحیت کا استعمال زیادہ سے زیادہ سطح تک پہنچ جائے اور اس کے مناسب نتائج برآمد ہو تو اشیا و خدمات کی طلب میں اضافہ ہوسکتا ہے، جس میں معاشی سست روی میں کمی لائی جاسکتی ہے ۔ واضح رہے کہ صلاحیت کا استعمال اس حد تک ہے جہاں ایک انٹرپرائز اپنی دستیاب صلاحیت کو استعمال کر سکتا ہے۔

لہذا سرکاری اخراجات مزید روزگار کے مواقع پیدا کریں گے اور لوگوں کے ہاتھوں میں زیادہ سے زیادہ آمدنی پیدا ہوگی، جس سے معیشت بحال ترقی کی پڑی پر آسکتی ہے۔

اس کے بعد کے مرحلوں میں کاروباری اعتماد میں بہتری آئے گی اور ٹیکس کے محصولات میں مزید بہتری ہوگی اور مالی صورتحال ٹھیک ہو جائے گی۔

کسانوں کو قرض کی سہولیات میں آسانی اور معقول منافع فراہم کیا جائے

لہذا مالی خسارے کے اعداد وشمار سے زیادہ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ وہ بہتر قیمت ہے، جسے مناسب استعمال کیا جا سکتا ہے۔

مختلف شعبہ جات کے لیے الگ الگ اخراجات کی ضرورت:

ایک بار جب یہ واضح ہوجاتا ہے کہ ہمیں خرچ کرنا چاہئے یا نہیں، تو سوال آتا ہے کہ کہاں خرچ کرنا ہے؟

زراعت ایک ایسا شعبہ ہے جس میں حکومت کے زیادہ سرمایہ کاری کے ساتھ بہتر نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔

مجموعی گھریلو پیداور( جی ڈی پی) میں مانسب حصہ داری کے طور پر زرعی آمدنی سنہ 2012 تا سنہ 2018 کے دوران کم ہوکر 3.1 فیصد رہ گئی ہے ، جب کہ سنہ 2002 سے لے کر 2011 کے دوران 4.4 فیصد تھی۔

اس حساب سے زراعت کی آمدنی میں کمی یقینی طور پر کھپت کو کم کرے گی اور اس کام کا مطلب یہ ہے کہ آمدنی میں اضافہ کرکے کھپت کی طلب میں اضافہ کیا جائے۔

یہ دیہی بنیادی ڈھانچے اور پیداواری تقسیم (سپلائی چین) میں سرمایہ کاری کے ذریعہ کیا جاسکتا ہے جس سے قیمتوں میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔

اس سے نہ صرف انفراسٹرکچر یعنی بنیادی سہولیات کی تعمیر ہوگی بلکہ ملک کے دیہی نقطہ نظر کو بھی بدلا جاسکے گا۔

یہ وقت خرچ کرنے اور سرمایہ کاری کا ہے اور اس کا صحیح خرچ کرنا خود خرچ کرنے سے زیادہ اہم ہے۔

(ترجمہ: محمد رحمٰن پاشا)

Last Updated : Feb 18, 2020, 5:00 AM IST

ABOUT THE AUTHOR

...view details