ماہر معاشیات مہندر بابو کرووا نے بتایا کہ گرتی ہوئی معاشی نمو کو بحال کرنے کے لئے حکومت کی طرف سے اخراجات کو بڑھانا کیوں ضروری ہے؟
بھارت میں چل رہی معاشی سست روی کے درمیان یکم فروری 2020 کو وزیر خزانہ نرملا سیتا رمن ملک کے نامور صنعتکاروں اور دیگر ماہرین اقتصادیات کے ساتھ مشترکہ طور پر بجٹ تقریر پیش کرئے گی۔ جس میں موجودہ معاشی بحران کے سلسلے میں حل پیشں کیے جانے کی امید ہے۔
نریندر مودی کے دورسرے دور حکومت میں یکم فروری 2020 کو مرکزی وزیر خزانہ نرملا سیتا رمن اپنا پہلا مکمل بجٹ پیش کریں گی۔
کروڑ پتی سے لے کر عام آدمی تک، کشمیر سے کنیاکماری تک پورے ملک کی نگاہ اس امید کے ساتھ بجٹ تقریر پر ہوگی کہ قومی سطح کے اس بجٹ میں کیا نیا ہوگا اور عام آدمی کو کیسے راحت ملے گی؟
بھارتی معیشت گزشتہ گیارہ برسوں میں اپنی سست رفتار کیفیت کی آخری حد تک پہنچ چکی ہے۔ معاشی نمو میں 'زورال' ایسا آرہا ہے کہ اس میں بار بار 'ترقی' ہوتی جارہی ہے۔
بے روزگاری کی شرح چار دہائیوں سے زیادہ کی بلند ترین سطح پر ہے اور اشیا کی قیمتیں آسمان کی بلندیو ں کو چھو رہی ہیں۔
پیداوری شعبہ (مینوفیکچرنگ سیکٹر) میں نیم یا کم ہنر مند مزدور قوت کی بڑی تعداد کو روزگار کے مواقع فراہم کیے جاسکتے ہیں، لیکن معاشی مندی کے سبب یہ ممکن نہیں ہے۔
دیہی ترقی کے لئے زراعت ایک اہم اور بنیای عنصر ہے، مگر اس شعبے میں گزشتہ برسوں کے مقابلے 3 فیصد سے بھی کم ترقی ہوئی ہے۔
ڈیووس میں ورلڈ اکنامک فورم سربراہی اجلاس کی ضمنی خطوط پر حال ہی میں جاری کردہ ورلڈ اکنامک آؤٹ لک، گلوبل سوشل موبلٹی انڈیکس اور آکسفیم رپورٹ سے واضح طور پر اس بات کی نشاندہی ہوتی ہے کہ بھارت میں دولت پیدا کرنے کی شرح سست روی کا شکار ہے۔ دولت مند اور غریب لوگوں کی تقسیم کو ختم کرنے کے لئے ٹھوس اقدامات اٹھانا ازحد ضروری ہے۔
راستہ کیا ہے؟
اس سلسلے میں کئی راستے ہوسکتے ہیں، ان میں سے ایک بڑے پیمانے پر سرکاری اخراجات بہترین حل ہے۔
موجودہ معاشی سست روی کی بڑی وجہ طلب سے متعلق معاملات (ڈیمانڈ سائڈ ایشوز) کی بجائے رسد (سپلائی) سے وابستہ رکاوٹوٹیں ہے۔
دوسرے الفاظ میں جب بازار میں کافی سامان اور خدمات دستیاب ہیں، لیکن لوگوں کی خریداری قوت میں اضافہ نہ ہوتو وہ حالیہ سست روی کا باعث بن سکتا ہے۔
درحقیقت ریزرو بینک آف انڈیا (آر بی آئی) کی ایک حالیہ رپورٹ میں بھی صارفین کے گھٹتے ہوئے اعتماد، کاروباری ساکھ اور صنعتوں کے ذریعہ نئی اشیا کی عدم فراہمی کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ طلب میں کمی واقع ہوئی ہے۔ لہذا اس کا حل بڑی حد تک معیشت میں ضروریات کے مطابق طلب کو بحال کرنے میں مضمر ہے۔
سنہ 2019 میں ملک میں بینکوں کو کنٹرول کرنے والے آر بی آئی نے اہمسود کی شرح (ریپو ریٹ) کو 135 بنیادی پوائنٹز یا 1.35٪ تک کم کرکے اس اندازے کے ساتھ اپنا فائدہ اٹھایا ہے کہ وہ مکانات، کاروں اور کم شرح سود کے قرضوں سے وابستہ ہے۔
بدقسمتی سے ابھی تک اس کے مطلوبہ نتائج برآمد نہیں ہوئے ہیں۔ شاید یہ ایک طویل وقفہ کے ساتھ نتائج برآمد کرئے گا۔
اس طرح اس وقت یہ حکمت اپنانی ہوگی کہ معاشی سست روی میں کمی اور اس کے خاتمے کے لئے آئندہ بجٹ (2020) میں مناسب اصلاحات کئے جائیں۔ اس کے علاوہ مختلف شعبے جات میں مخصوص عوامی سرمایہ کاری کی جاسکتی ہے اور اخراجات کو وقتی طور پر کم کیا جاسکتا ہے۔