اردو

urdu

ETV Bharat / bharat

'دیکھا نہ کاروبار محبت کبھی حفیظؔ'

آج معروف شاعر حفیظ جالندھری کا یوم پیدائش ہے۔ ان کی پیدائش 14 جنوری سنہ 1900 میں بھارت کی ریاست پنجاب کے شہر جالندھر میں ہوئی تھی۔ ان کی مشہور و معروف تخلیقات میں سے ایک پاکستان کا قومی ترانہ بھی ہے۔

By

Published : Jan 14, 2020, 12:15 PM IST

Updated : Jan 14, 2020, 12:21 PM IST

Birth anniversary of famous urdu poet Hafeez jalandhari
'دیکھا نہ کاروبار محبت کبھی حفیظؔ'

ارادے باندھتا ہوں سوچتا ہوں توڑ دیتا ہوں
کہیں ایسا نہ ہو جائے کہیں ایسا نہ ہو جائے

مذکورہ شعر کے خالق حفیظ جالندھری کا نام محمد حفیظ اور کنیت ابوالاثر ہے، حفیظؔ تخلص تھا۔ ان کے والد کا نام شمس الدین ہے جو ایک حافظ قرآن تھے۔

ان کی پیدائش 14 جنوری سنہ 1900 میں بھارتی پنجاب کے شہر جالندھر میں ہوئی۔

مروجہ دینی تعلیم کے بعد اسکول میں داخلہ لیا مگر کوئی تعلیمی اسناد حاصل نہیں کی۔ مولانا غلام قادر بلگرامی جو ان کے ہم وطن تھے، ان کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کیا۔

حفیظ جالندھری غزل اور نظم دونوں کے قادرالکلام شاعر تھے۔ ان کی سب سے مشہور تخلیق پاکستان کا قومی ترانہ ہے۔ اس کے علاوہ فردوسی کے شاہ نامہ (فارسی) کے طرز پر اردو میں 'شاہ نامہ اسلام' بھی کافی مشہور ہے، جو چار جلدوں پر مشتمل ہے۔

ان کی مشہور نظم 'ابھی تو میں جوان ہوں' کو جب پاکستان کی موسیقار 'ملکۂ پکھراج' نے گائی تو ایک مشہور نغمہ کی حیثیت سے یہ نظم مشہور ہوئی جس کا میوزک ماسٹر عنایت حسین نے تیار کیا تھا۔

سنہ 1949 میں جب حکومت پاکستان نے قومی ترانے کے انتخاب کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی تو 723 افراد نے قومی ترانہ لکھنے کے لیے جد و جہد کی۔ کمیٹی نے حفیظ جالندھری کے ترانے کو منتخب کیا۔

پاکستان کا قومی ترانہ پہلی بار 1954ء میں نشر ہوا۔ اس کی دھن احمد جی چھاگلہ نے ترتیب دی۔

سنہ 1987 میں ڈاکٹر خلیق انجم نے 'جگن ناتھ آزاد حیات اور ادبی خدمات' کے نام سے ایک کتاب لکھی جس کے مطابق 'معروف شاعر جگن ناتھ آزاد پہلے قومی ترانے کے خالق تھے۔

محمد علی جناح کی خواہش پر جگن ناتھ آزاد نے یہ ترانہ لکھا تھا۔ محمد علی جناح نے اسے منظور کیا تھا اور 18 ماہ تک یہ پاکستان کے قومی ترانے کے طور پر رائج رہا۔ اس ترانے کے الفاظ تھے 'ذرے ترے ہیں آج ستاروں سے تابناک ۔ ۔ ۔ اے سرزمین پاک' قائد اعظم کی وفات کے بعد اسے تبدیل کر دیا گیا'۔

بعض افراد حفیظ جالندھری کو شاعر اسلام کہتے ہیں صرف اس بنیاد پر کہ انھوں نے شاہنامہ اسلام لکھا اور کئی منقبتیں امام حسین علیہ السلام کی بارگاہ میں لکھیں۔

لیکن ناقدین کا کہنا ہے یہ صحیح نہیں ہے، انہوں نے ہندوؤں کے بھگوان کرشن کے لیے بھی نظمیں لکھی ہیں۔


اردو کا یہ شاعر 21 دسمبر 1982 میں اپنے مالک حقیقی سے جا ملتا ہے۔ لاہور میں مینارِ پاکستان کے باغ میں ان کا مقبرہ بنایا گیا ہے۔

ان کی چند تصانیف یہ ہیں: 'نغمۂ زار' ، 'سوز وساز'، 'تلخابۂ شیریں'، 'چراغ سحر'، 'شاہنامہ اسلام'۔

'شاہنامہ اسلام' سے ان کی شہرت میں بہت اضافہ ہوا۔ انھوں نے شاعری کے علاوہ افسانے بھی لکھے۔ بچوں کے لیے گیت اور نظمیں بھی لکھیں۔

ان کے چند مشہور اشعار ملاحظہ کریں۔۔۔۔

ارادے باندھتا ہوں سوچتا ہوں توڑ دیتا ہوں
کہیں ایسا نہ ہو جائے کہیں ایسا نہ ہو جائے
۔۔۔۔۔۔۔
دوستوں کو بھی ملے درد کی دولت یا رب
میرا اپنا ہی بھلا ہو مجھے منظور نہیں
۔۔۔۔۔۔۔
حفیظؔ اپنی بولی محبت کی بولی
نہ اردو نہ ہندی نہ ہندوستانی
۔۔۔۔۔۔۔
کوئی چارہ نہیں دعا کے سوا
کوئی سنتا نہیں خدا کے سوا
۔۔۔۔۔۔۔
یکھا نہ کاروبار محبت کبھی حفیظؔ
فرصت کا وقت ہی نہ دیا کاروبار نے

Last Updated : Jan 14, 2020, 12:21 PM IST

ABOUT THE AUTHOR

...view details