احمد فراز کی پیدائش (پاکستان) کوہاٹ کے ایک معزز سادات خاندان میں ہوئی۔ شاعری کا فن انہیں والد سے وراثت میں ملا۔ ان کے والد سید محمد شاہ برق فارسی کے ممتاز شاعر تھے۔
احمد فراز نے اردو، فارسی اور انگریزی ادب میں ایم اے کیا لیکن ان کی مادری زبان پشتو تھی۔ باوجود اس کے انہوں نے چار زبانوں پر عبور حاصل کر اردو زبان میں شاعری کی سمت تلاش کی۔
ان کے والد کی خواہش تھی کہ وہ سائنس اور ریاضی میں تعلیم آگے جاری رکھیں لیکن فراز کا فطری میلان ادب و شاعری کی طرف تھا۔
فراز نے کبھی عشق، کبھی انقلاب کبھی دوستی تو کبھی ماضی کے حالات اپنی شاعری میں بیان کیے ہیں۔ چند اشعار ملاحظہ کریں۔۔۔
اب زمیں پر کوئی گوتم نہ محمد نہ مسیح
آسمانوں سے نئے لوگ اتارے جائیں
۔۔۔۔۔
اب کے ہم بچھڑے تو شاید کبھی خوابوں میں ملیں
جس طرح سوکھے ہوئے پھول کتابوں میں ملیں
۔۔۔۔۔
رنجش ہی سہی دل ہی دکھانے کے لیے آ
آ پھر سے مجھے چھوڑ کے جانے کے لیے آ
۔۔۔۔۔
تم تکلف کو بھی اخلاص سمجھتے ہو فرازؔ
دوست ہوتا نہیں ہر ہاتھ ملانے والا
۔۔۔۔۔
اگر تمہاری انا ہی کا ہے سوال تو پھر
چلو میں ہاتھ بڑھاتا ہوں دوستی کے لیے
۔۔۔۔۔
کچھ اس طرح سے گزاری ہے زندگی جیسے
تمام عمر کسی دوسرے کے گھر میں رہا
۔۔۔۔۔
سنا ہے بولے تو باتوں سے پھول جھڑتے ہیں
یہ بات ہے تو چلو بات کر کے دیکھتے ہیں
فراز اپنے عہد کے سچے ترجمان تھے، انہوں نے دیگر انقلابی شعرا کی طرح جنرل ضیاءالحق کی حکومت کے خلاف اشعار کہے، جس کی پاداش میں انہیں گرفتار کیا گیا جو چھ برس تک جلاوطنی کا عذاب بھی سہتے رہے۔
فراز عام طور سے رومانی شاعر کے طور پر عوام میں مقبول ہیں، ان کی مشہور زمانہ غزل 'سنا ہے لوگ اسے آنکھ بھر کے دیکھتے ہیں' عام و خاص کی زبان زد ہے۔ اس کے علاوہ محبوب سے جدائی پر مبنی غزل 'رنجش ہی سہی دل ہی دکھانے کے لیے آ' بھی بہت معروف و مقبول غزل ہے۔
دونوں غزل یہاں پیش کی جاتی ہیں۔
سنا ہے لوگ اسے آنکھ بھر کے دیکھتے ہیں
سو اس کے شہر میں کچھ دن ٹھہر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے ربط ہے اس کو خراب حالوں سے
سو اپنے آپ کو برباد کر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے درد کی گاہک ہے چشم ناز اس کی
سو ہم بھی اس کی گلی سے گزر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے اس کو بھی ہے شعر و شاعری سے شغف
سو ہم بھی معجزے اپنے ہنر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے بولے تو باتوں سے پھول جھڑتے ہیں
یہ بات ہے تو چلو بات کر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے رات اسے چاند تکتا رہتا ہے
ستارے بام فلک سے اتر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے دن کو اسے تتلیاں ستاتی ہیں
سنا ہے رات کو جگنو ٹھہر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے حشر ہیں اس کی غزال سی آنکھیں
سنا ہے اس کو ہرن دشت بھر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے رات سے بڑھ کر ہیں کاکلیں اس کی
سنا ہے شام کو سائے گزر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے اس کی سیہ چشمگی قیامت ہے
سو اس کو سرمہ فروش آہ بھر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے اس کے لبوں سے گلاب جلتے ہیں
سو ہم بہار پہ الزام دھر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے آئنہ تمثال ہے جبیں اس کی
جو سادہ دل ہیں اسے بن سنور کے دیکھتے ہیں