ریاست بہار کے ضلع گیا کی تاریخ قدیم ہے، اس شہر کو ضلع بنے 156 برس مکمل ہوچکے ہیں، ضلع گیا کئی نشیب وفراز سے گذرا ہے، تاریخ کے صفحات میں اس بات کی تصدیق ہوتی ہے کہ اس ضلع کانام گیا امرت رس کے نام سے رکھا گیا ہے جو بہار کا ایک نامور حکمراں تھا۔ سنہ 1906 میں شائع ایل ایس اومالے آئی سی ایس کی تصنیف کردہ 'گیا ڈسٹرک گزیٹر' میں درج ہے کہ بھگوت پران کے مطابق گیا ایک بادشاہ کانام تھا اور وہ اس شہر پر 'ترت یگ' میں قابض تھا۔ شاد عظیم آبادی کی تصنیف 'نقش پائیدار' میں بغیر کسی حوالے کے ان باتوں کوشامل کیاگیا ہے۔
ضلع گیا مذہبی اعتبارسے بھی کافی اہمیت کاحامل ہے، ہندوسناتن مذہب کے اعتبار سے یہاں مرحومین کی روح کی نجات وتسکین کے لیے پنڈدان کیاجاتاہے۔ یہاں وشنو پتھ مندر ہے۔ مندر صدیوں پرانی ہے تاہم سنہ 1766 میں ہول کراسٹیٹ کی مہارانی اہلیابائی نے اسکی تعمیر کرایی تھی۔
شہر گیا کو اس بات کابھی فخر حاصل ہے کہ سنہ 1670 میں حضرت اورنگ زیب نے بذریعہ فرمان وشنوپدمندر کی رکھ رکھاو کے لیے پنڈدت چندر چودھری کوچار سوبیگہ زمین ہدیے میں دی تھی 1698 میں غازی الہی نے ایک سو ستر بیگہ زمین بذریعہ فرمان وشنوپد کے خدمتگاروں دان دی تھی۔ ہندوں کے علاوہ یہ بودھ دھرم کے پیروکاروں کاسب سے مقدس مقام ہے۔
گوتم بدھ کو گیاسے سات میل دور بودھ گیا میں ایک پیپل کے درخت کے نیچے علم حاصل ہوا۔ گیا اور اسکے اطراف میں مسلمانوں کی آمد کی ابتدا چھٹی صدی ہجری سے ہوئی ہے، صوفی عالم کامل صاحب سلف اور تجارت پیشہ افراد نے اسے اپنامسکن بنایا۔ گیا میں اردو زبان وادب میں ادب وثقافت کی طویل داستان ہے،گیا سے شائع ہونے والا پہلا اردو اخبار ویکلی رپورٹ تھا جویکم مئی 1856 سے شائع ہوناشروع ہوا اور یہ بہارسے شائع ہونے والا تیسرا اردو اخبارتھا۔ حالانکہ فی الحال گیا سے اردو کا رسالہ یا اخبار کی طباعت نہیں ہو رہی ہے۔