اردو

urdu

بھارت بند کے دوران ٹریفک، بجلی اور بینک خدمات متاثر

By

Published : Jan 8, 2020, 10:31 PM IST

ملک کی تقریبا 10 ٹریڈ یونینز اور بینک ملازمین یونینز نے آج بھارت بند کی کال دی جس کی وجہ سے ہڑتال کا اثر بینکوں کے کام کاج، نقل و حمل اور ٹرین و بسیز خدمات سمیت دیگر شعبے میں منفی اثر دیکھنے کو ملے۔

Bharat Bandh: How All-India Strike Impacted Bengal, Delhi, Punjab, Odisha, Other States
بھارت بند کے دوران ٹریفک، بجلی اور بینک خدمات متاثر

حکومت کی ملک مخالف اور عوام مخالف اقتصادی پالیسیوں،شہریت ترمیمی قانون سی اے اے کے خلاف بائیں بازو حامی اور 10 ٹریڈ یونینز کی جانب سے بدھ کو منعقد سال کی پہلی ملک گیر ہڑتال ’بھارت بند‘ کا ملا جلا اثر دیکھا گیا۔

بھارت بند کے دوران ٹریفک، بجلی اور بینک خدمات متاثر

ملک بھر میں پرائیویٹ گاڑیاں نہیں چلیں اور ٹریفک، بجلی اور بینکنگ خدمات متاثر رہیں۔ صنعتی سیکٹروں میں کام کاج نہیں ہوا اور اہم بازار بند رہے۔ ہماچل پردیش، ہریانہ، پنجاب، بہار، اترپردیش، مدھیہ پردیش، راجستھان، اڑیسہ، تلنگانہ، کیرالہ، مغربی بنگال، آسام، تری پورہ، کرناٹک، تمل ناڈو، دہلی، مہاراشٹر، چھتیس گڑھ اور آندھرا پردیش وغیرہ سے مزدوروں کے دھرنے و مظاہرہ اور عوامی ریلیاں کی خبریں ملیں ہیں۔

ہڑتال سے معمولات زندگی جزوی طور سے متاثر ہوئی۔ اس میں بینکنگ صنعت کے علاوہ نقل و حمل اور خدمات کے شعبہ متاثر رہا۔ پرائیویٹ ٹیکسی سروس اولا، اوبر آٹو رکشہ کی تنظیموں نے بھی ہڑتال کی حمایت کی۔

ورکرز تنظیمیں تمام لوگوں کو روزگار، عالمگیر طورسے راشن، صحت و تعلیم، کم از کم اجرت 21 ہزار فی ماہ، کسانوں کو زراعت کی پیداوار کی مناسب قیمت اور سب کو کم از کم 10 ہزار روپے فی ماہ پنشن دینے کا مطالبہ کر رہی ہیں۔ اس کے علاوہ شہریت ترمیمی قانون، سی سی اے اے لیبر معاہدہ، پبلک سیکٹر کی کمپنیوں کی نجکاری کرنے کے منصوبوں کو واپس لینا بھی ان کے اہم مطالبات میں شامل ہیں۔

بھارت بند کا انعقاد انڈین نیشنل ٹریڈ یونین کانگریس، آل انڈیا ٹریڈ یونین کانگریس، ہند مزدور سبھا، سینٹر فار انڈین ٹریڈ يونیینز، آل انڈیا متحد ٹریڈ یونین سینٹر، ٹریڈ یونین كوآرڈی نیشن سینٹر، سیلف امپلائڈ ڈ ويمنس ایسوسی ایشن، آل انڈیا سینٹرل کونسل آف ٹریڈ يونيز، لیبر پروگریسو فیڈریشن اور یونائٹیڈ ٹریڈ یونین کانگریس سے منسلک ورکرز یونین حصہ لے رہی ہیں۔ اگرچہ راشٹریہ سویم سیوک سنگھ سے منسلک بھارتیہ مزدور سنگھ نے ’بھارت بند‘ کی حمایت نہیں کی ہے۔ بھارت بند میں مختلف صنعتی سیکٹروں اور سماج کے مختلف طبقوں کے تقریبا 25 کروڑ لوگوں کے حصہ لینے کا دعوی کیا گیا ہے۔

سینٹر فار انڈین ٹریڈ يونيس (سیٹو) نے کہا کہ' سرکاری کمپنیوں اور بینکوں کی نجکاری روکنے، کم از کم اجرت میں اضافہ، عالمگیر سوشل سیکورٹی فراہم کرنے اور لبرل ازم اور اصلاحات سے متعلق اقتصادی پالیسیوں پر حکومت کے ساتھ بات چیت ناکام ہونے پر قومی سطح پر ’بھارت بند ‘کا اہتمام کیا ہے۔ تاہم طبی خدمات، خوردنی اشیاء، فائر بریگیڈ اور پانی کی سپلائی جیسی ضروری خدمات کو ہڑتال سے مستثنیٰ رکھا گیا۔

ورکرز لیڈروں کا کہنا ہے کہ' مرکزی لیبر اور روزگار وزیر سنتوش گنگوار کے ساتھ بات چیت کا کوئی نتیجہ نہیں سامنے آیا اس لیے مزدوروں کو سڑک پر اترنا پڑا۔ گزشتہ ہفتہ تک ہونے والی میٹنگ میں کوئی مثبت نتائج سامنے نہیں آسکے۔ بات چیت کے دوران ورکرز ایسوسی ایشن نے سرکاری کمپنیوں کے انضمام، سرمایہ کشی اور نجکاری کے معاملہ اٹھائے لیکن حکومت کوئی ٹھوس یقین دہانی نہیں دے سکی۔

رانچی سے ملنے والی خبروں کے مطابق جھارکھنڈ کی کوئلہ صنعت متاثر ہوئی ہے۔ دھنباد میں کوئلے کی کان کن کمپنیاں بھارت کوکنگ کول لمیٹڈ (بی سی سی ایل) اور ایسٹرن كول فیلڈ لمیٹڈ (ای سی ایل) کی کانوں پر اثر پڑا۔ ہڑتال کو کامیاب بنانے کے لیے مزدور تنظیموں سے وابستہ مزدور، ملازمین اور رہنما کوئلہ کانوں کے باہر کافی سرگرم نظر آئے۔ تمام ضلع کوراٹر کی بینک شاخوں میں کام کاج نہیں ہونے سے لین دین متاثر ہوا ۔

کوڈرماے تھرمل پاور پلانٹ کے مزدوروں نے پلانٹ کے مرکزی دروازے پر ہڑتال اورمظاہرہ کیا۔ ہڑتال کی وجہ سے پلانٹ سے بجلی کی پیداوار کے متاثر ہونے نے کی اطلاعات ہیں۔ گریڈیہہ میں بند کی حمایت میں بھارتی کمیونسٹ پارٹی مارکسی- لیننسٹ (سی پی آئی) کے حامیوں نے جلوس نکالا۔ اس کے علاوہ ہزاری باغ، دیوگھر، صاحب گنج، دمکا، گوڈا، لوہردگا، لاتیہار، سمڈیگا، چترا سمیت کئی اضلاع میں بند کا اثر دیکھا گیا۔ اگرچہ پلامو میں ہڑتال کی حمایت میں ووکرز تنظیموں نے دھرنا دیا۔ میدني نگر واقع جنرل پوسٹ آفس کے باہر ڈاک ملازمین نے دھرنا دیا۔

لکھنؤ سے موصولہ رپورٹ میں کہا گیا کہ' پرانی پنشن بحالی کا مطالبہ اور بجلی کی مسلسل نجکاری کیے جانے کے خلاف ملک بھر کے تقریبا 15 لاکھ ملازمین اور انجینئرز ہڑتال پر ہیں۔ آل انڈیا پاور انجینئرز فیڈریشن کے صدر شیلندر دوبے نے کہا کہ' مرکزی اور ریاستی حکومت بجلی کی مسلسل نجکاری کر رہی ہے جس سے اس کی قیمت بڑھ رہی ہے جس کا بوجھ صارفین پر پڑ رہا ہے۔ ہڑتال کا اعلان نیشنل كوآرڈی نیشن کمیٹی آف الیکٹرک سٹی امپلائز اور انجینئرز نے کیا ہے جس میں اترپردیش، کیرالہ، تمل ناڈو، آندھرپردیش، تلنگانہ، مدھیہ پردیش، گجرات، مہاراشٹر، کرناٹک، آسام، بہار اور جھارکھنڈ کے ملازمین شامل ہوئے ۔

بہار میں ریل اور سڑک ٹریفک متاثررہا اور بہت سے چھوٹے بڑے ادارے بھی بند دیکھے گئے۔ دارالحکومت پٹنہ میں ہڑتال کا ملا جلا اثر دیکھا گیا۔ سڑکوں پر عام دنوں کے مقابلے کم گاڑیاں دیکھی جارہی رہی ہیں۔ اس ہڑتال کو آٹو رکشہ ڈرائیور یونین کی حمایت حاصل تھی۔ بند کو لے کر پٹنہ ضلع انتظامیہ کی جانب سے سیکورٹی کے سخت انتظام کئے گئے تھے۔ دارالحکومت کے اہم ڈاك بنگلہ چوراہااور پٹنہ جنکشن کے قریب اضافی پولیس فورسز تعینات کیے گئے۔ بینک اور انشورنس کمپنیوں کے ملازمین کے ہڑتال میں شامل ہونے کی وجہ سے عام دنوں کی طرح سڑکوں پر بھیڑ بھاڑ نہیں دیکھی گئی۔

ملک گیرہڑتال کے اعلان کی وجہ سے پنجاب کے جالندھرمیں مکمل بند کی وجہ سے کام کاج متاثر رہا۔ پنجاب روڑویز، بینک ملازمین اور ٹریڈ یونینوں کے ہزاروں ملازمین ہڑتال پرر ہے۔ مزدور تنظیموں کی طرف سے جالندھر میں کئی مقامات پر راستے کو بلاک کردینے کی وجہ سےبس اور ریل ٹریفک متاثر رہے۔ کسانوں نے پھل، سبزیاں اور دودھ کی فراہمی روک رکھی ہے۔ بھارتیہ جیون بیمہ کارپوریشن، کوآپریٹو بینک، آر بی آئی، ایف ایم آر اے آئی (میڈیکل) آربی ایس اور پی ایس یو کی یونینوں نے بھی ہڑتال کا اعلان کیا تھا۔

مدھیہ پردیش میں بھی مختلف ورکرز تنظیموں کے ملازمین اور مزدور ہڑتال پر رہے ۔دارالحکومت بھوپال کے ایم پی نگر میں اورینٹل بینک آف کامرس ریجنل آفس کےسامنے مظاہرہ، ریلی اور ہڑتال اور مظاہرہ کیا گیا ۔ کیرالہ میں نقل و حمل کے نظام میں خلل پیدا ہونے کی خبر یں ملی ہیں۔ تلنگانہ اور آندھرا پردیش میں مزدور تنظیموں نے مظاہرہ کیا اور ریلیاں نکالیں۔ دونوں ریاستوں میں نقل و حمل کی سروس متاثر رہی۔بجلی اور بینکاری اور انشورنس خدمات پر اثر دیکھا گیا۔

ABOUT THE AUTHOR

...view details