بچپن میں بیگم اختر استاد محمد خان سے موسیقی کی تعلیم حاصل کرتی تھیں، اسی دوران ایک ایسا واقعہ پیش آیا کہ بیگم اختر نے گانا سیکھنے سے انکار کردیا۔
ان دنوں بیگم اختر کے صحیح سُر نہیں لگتے تھے، ان کے استاد نے انہیں کئی بار سکھایا اورجب وہ نہیں سیکھ پائیں تو انہیں ڈانٹ دیا، بیگم اختر نے روتے ہوئے ان سے کہا کہ 'ہم سے نہیں بنتا نانا جی۔۔میں گانا نہیں سیکھوں گی۔ ان کے استاد نے کہا۔۔بس اتنے میں ہار مان لی تم نے ۔۔۔ نہیں بٹو ایسے ہمت نہیں ہارتے۔۔۔میری بہادر بٹیا چلو ایک بار پھر سے سر لگانے میں جُٹ جاؤ۔۔۔ان کی بات سن کر بیگم اختر نے پھر سے ریاض شروع کی اور صحیح سُر لگائے'۔
اترپردیش کے فیض آباد میں 7 اکتوبر سنہ 1914 میں پیدا ہوئیں بیگم فیض آباد میں سارنگی کے استاد ایمان خاں اور عطا محمد خان سے موسیقی کی ابتدائی تعلیم حاصل کی، انہوں نے محمد خان، عبدالوحید خان سے بھارتیہ شاستریہ موسیقی سیکھی۔
تیس کی دہائی میں بیگم اختر پارسی تھیئٹر سے منسلک ہوگئیں، ڈراموں میں کام کرنےکی وجہ سے ان کا ریاض چھوٹ گیا جس سے محمد عطا خان بےحد ناراض ہوئے اور انہوں نے کہا، جب تک تم ڈرامہ میں کام کرنا نہیں چھوڑوگی میں تمہیں گانا نہیں سکھاؤں گا۔
ان کی اس بات پر بیگم اختر نے کہا۔۔۔ آپ صرف ایک بار میرا ڈرامہ دیکھنے آجائیں اس کے بعد آپ جو کہیں گے میں کروں گی۔
اس رات محمد عطا خان بیگم اختر کا ڈرامہ 'ترکی حور' دیکھنے گئے،جب انہوں نے اس ڈرامے کا گانا 'چل ری میری نئیا' گایا تو ان کی آنکھوں میں آنسوں آگئے اور ڈرامہ ختم ہونے کے بعد ان سے محمد عطا خان نے کہا 'بٹیا تو سچی اداکارہ ہے، جب تک چاہو ڈرامہ میں کام کرو'۔
بطور اداکارہ بیگم اختر نے' ایک دن کا بادشاہ' سے سنیما میں اپنے کریئر کا آغاز کیا لیکن اس فلم کی ناکامی کی وجہ سے اداکارہ کے طور پر وہ کچھ خاص شناخت نہیں بنا پائیں۔
سنہ 1933 میں ایسٹ انڈیا کے بینر تلے بنی فلم 'نل دمینتی' کی کامیابی کے بعد بیگم اختر بطور اداکارہ اپنی کچھ شناخت بنانے میں کامیاب رہیں۔