سنہ 2020 کی شروعات کے ساتھ ہی عالمی سطح پر کورونا وائرس نے ہر شعبے کو متاثر کرنا شروع کیا۔ ایک طرف کورونا وائرس کی وبا تو دوسری طرف مسلسل لاک ڈاون نے لوگوں کو گھروں میں مقید کر دیا۔
لاک ڈاؤن کی وجہ سے لوگ اپنے گھروں میں رہے اور سوشل میڈیا کے ذریعہ خبروں سے باخبر ہوتے رہے۔ ڈیجٹیل میڈیا پر ان کا انحصار بڑھتا چلا گیا۔
بھارت کے بہت سے اخبارات نے اپنی اشاعت میں کمی کر دی، وہیں جب لوگ گھروں سے نکلنے لگے تو اخبار کی طرف ان کا رجحان اور کم ہوتا چلا گیا ہے۔۔
اگر بات اردو اخبارات کریں تو اس کی حالت اور بھی زیادہ خستہ ہوگئی ہے۔ عوامی مقامات پر آج بھی دیگر زبانوں کے اخبارات آسانی سے مل جاتے ہیں مگر اردو کا اخبار کم ہی ملتا ہے۔
تاہم اس وقت اردو زبان کی جو صورتحال ہے، وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔
اردو کی حالت زار کے کچھ لوگ حکومت کو ذمہ دار مانتے ہیں وہیں کچھ لوگ ایسے ہیں جو اہل زبان کو اس ذمہ دار مانتے ہیں۔
اتنے ہی زمہ دار ہیں وہ لوگ، جو اسے بولتے ہیں اور جن کے معاش کا ذریعہ یہ زبان ہے۔
ایک زمانہ تھا کہ جب بریلی میں اردو اخبارات کو خاص توجہ ملتی تھی۔ تمام عوامی مقامات پر متعدد اردو اخبارات آتے تھے اور دیر تک لوگ ان اخباروں کا مطالعہ کرتے تھے۔ تاہم جیسے جیسے وقت اور حالات میں تبدیلی ہوتی گئی اردو زبان کوفراموش کرنے کا سلسہ بھی شروع ہوگیا۔
ریاست اترپردیش کے شہر بریلی میں کچھ افراد یہ مانتے ہیں اردو ایک خاص طبقہ کی زبان ہے تاہم اردو کسی خاص طبقہ کی زبان نہ ہوکر ہر اُس شخص کی زبان ہے، جو اسے بولتا اور سمجھتا ہے۔
اس زبان کو لکھنے، بولنے اور سمجھنے میں کوئی مذہبی قید نہیں لگائی جا سکتی ہے۔ عوام اور خاص طور پر حکومتوں نے بھی اردو زبان کو صرف مسلمانوں کی زبان بنانے کی کوشش کی۔
مقامی افراد نے بتایا کہ بریلی میں سرکاری کاغذات سے اسے ہٹایا گیا اور اس کی تحریری شکل کو غیر ضروری ثابت کرنے کی کوشش کی گئی۔
تعلیمی اداروں میں اردو کی لازمیت کو ختم کرکے متبادل یا اختیاری مضمون کے طور پر شامل کیا جانے لگا۔
تحریک آزادی کے دوران اردو زبان اپنے عروج پر تھی اور درجنوں اردو کے اخبارات شائع ہوتے تھے۔