لکھنؤ کی عدالت نے 28 برس بعد بابری مسجد انہدام کیس میں نامزد تمام 32 ملزمان کو بری کر دیا۔
بی جے پی کے سینئر رہنما اور بابری مسجد انہدام کیس کے کلیدی ملزم لال کرشن اڈوانی نے اسے تاریخی فیصلہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس فیصلے سے بھاجپا کا اعتقاد صحیح ثابت ہوا ہے۔
بی جے پی کے رہنما مرلی منوہر جوشی کے مطابق 'عدالت کے فیصلہ سے یہ بات عیاں ہو جاتی ہے کہ 6 دسمبر 1992 کو واردات ہوئی، اس میں کسی طرح کی کوئی سازش نہیں رچی گئی تھی، بلکہ وہ اچانک ہوا۔'
وہیں کانگریس کے رہنما راشد علوی نے سبھی ملزمین کو بری کرنے کے فیصلے پر حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا: 'سارے قاتل، سارے حاکم، سارے منصب ایک سے ہیں، کہاں اور کس سے انصاف مانگیں؟'
انہوں نے مزید کہا: 'ہم سب عدالتوں کی عزت کرتے ہیں، تاہم اگر عدالتوں کی جانب سے ایسے ہی فیصلے صادر کیے جاتے رہے، تو عدالتوں کی عزت میں بھی کمی واقع ہو جائے گی۔'
بابری مسجد انہدام کیس: اڈوانی اور دیگر سیاسی رہنماؤں کا ردعمل عدالت کی جانب سے فیصلہ صادر کیے جانے سے قبل 92 سالہ لال کرشن اڈوانی، 86 سالہ مرلی منوہر جوشی نے سی بی آئی کورٹ کو ویڈیو کانفرنس کے ذریعے 24 جولائی کو بیان دیتے ہوئے سبھی الزامات کو مسترد کر دیا تھا۔
بابری مسجد انہدام کیس، جس نے ملک کے سیاسی نقشے میں بڑی تبدیلی لائی، کے سبھی 32ملزمان، جن میں بی جے پی کے سینئر رہنماؤں بشمول لال کرشن اڈوانی، مرلی منوہر جوشی، اوما بھارتی اور سابق راجستھان گورنر کلیان سنگھ شامل ہیں، کو خصوصی عدالت نے بری کر دیا۔