بابری مسجد۔رام جنم بھومی کیس کی سماعت روزانہ کی بنیاد پر چھ اگست سے سپریم کورٹ میں جاری ہے۔
سپریم کورٹ میں روزانہ کی بنیاد پر آج چھٹے روز بابری مسجد۔رام جنم بھومی کیس سماعت ہو گی۔
آج بھی سپریم کورٹ میں ہندو فریق رام للا وراجمان کی طرف سے بحث کا آغاز کیا جائے گا۔
گزشتہ روز رام للا رواجمان کی طرف سے پیش ہوتے ہوئے سینئر وکیل کے پراسنن نے عدالت میں کہا تھا کہ صرف انھیں نکات پر بحث کی جا سکتی ہے، جو عرضداشت میں درج ہو، اس سے علاوہ نئے نکات پر بحث کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔
اس سے بعد رام للا کی جانب سے سنیئر وکیل سی ایس ودیاناتھن نے بحث شروع کی تھی اور عدالت کو بتایا تھا کہ یہ ضرورت نہیں ہے کہ کسی جگہ بت ہو، بلکہ ضروری یہ ہے کہ اس مذہب کے ماننے والے کا یقین ہو کہ وہاں رام کی پیدائش ہوئی تھی اور وہ وہیں موجود ہے۔
گزشتہ روز ایڈووکیت ودیاناتھن نے آئینی بنچ کو ہندو مذہب میں مورتی کی اہمیت اور اس کو لے کر ہندو مذہب کے پیروکاروں کے خدمات اور عقائد کو تفصیل سے بتایا ہے۔
دوران بحث مسلم فریق کے وکیل راجیو دھون نے عدالت کو بتایا کہ ہندو فریقین کی جانب سے سوٹ نمبر 1 داخل کی تھی، لیکن عدالت صرف سوٹ 3 اور سوٹ 5 پر سماعت کر رہی ہے، اس لیے عدالت سوٹ 1 پر بھی سماعت کرے، تاکہ وہ سب کا جواب دے سکے۔
اس سے قبل سماعت کے دوران رام للا وراج مان کے سینیئر وکیل کے پراسرن نے عدالت میں کہا تھا کہ 'جنم استھان' کی مستقل جگہ نہیں ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ آس پاس کے علاقوں سے بھی ہوسکتی ہے۔
انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ پورا علاقہ رام کے پیدائشی مقام سے ہے۔ اس کے تعلق سے کوئی تنازع نہیں کہ یہ جنم پیدائشی مقام رام کا ہے۔ ہندو اور مسلم دونوں فریق اس متنازع علاقے کو پیدائشی مقام کہتے ہیں۔
اس پر آئینی بنچ نے پوچھا تھا کہ کیا کسی پیدائشی مقام کو ایک قانونی شخصیت مانا جاسکتا ہے؟ مورتی ایک قانونی شخصیت ہوسکتی ہے، لیکن کیا ایک جگہ یا پیدائشی مقام قانونی شخصیت ہوسکتی ہے؟اس کے جواب میں مسٹر پراسرن نے کہا کہ ’رام للا وراجمان‘ اور’نرموہی اکھاڑہ‘کی طرف سے دائر دو الگ الگ سوٹ ایک دوسرے کے خلاف ہیں اور اگر ایک جیتتا ہے تو دوسرا خود بخود ہی ختم ہوجاتا ہے۔