آزادی کی سات دہائیوں کے بعد بھی بھارت - بھوٹان کی سرحد کے ساتھ بسنے والے لوگ پانی کی ضرورت کی تکمیل کے لیے بھوٹان پر منحصر ہیں۔
آسام کے مختلف دیہاتوں میں آباد لوگ اب دوطرفہ آبی معاہدے کا مطالبہ کررہے ہیں تاکہ دونوں ممالک کے مابین باہمی رابطے برقرار رہیں۔
بھارت - بھوٹان کی سرحد کے ساتھ رہنے والے لوگ آزادی کے 70 برس سے زیادہ گزرنے کے بعد خود کفیل نہیں ہوسکے۔ وہ اپنے پانی کی ضرورت کے لئے بھوٹان پر انحصار کرتے ہیں۔
آسام کے بکسہ، چیرنگ اور ادلگوری اضلاع میں رہنے والے لوگ پانی کے لئے بھوٹان پر انحصار کرتے ہیں۔ ان لوگوں کا کہنا ہے کہ 'اس کے علاوہ ہمارے پاس کوئی اور آبی وسائل دستیاب نہیں ہیں'۔
یہاں ڈونگ نامی ایک روایتی نظام موجود ہے جس کے ذریعہ مقامی لوگ نہریں کھودتے ہیں اور اس کے رخ کو اپنے دیہاتوں کے طرف موڑ لیتے ہیں۔
بھوٹان کی ندیوں سے آنے والے پانی کو دھان کے کھیتوں اور تالابوں میں بہاتے ہیں اور اسے مستقبل کے لیے بھی محفوظ کرتے ہیں۔
جب کہ مقامی لوگوں نے 22 جون کو یہ الزام لگا کر ایک احتجاج کیا کہ پڑوسی ممالک کے حکام نے پانی کا بہاو اپنی طرف موڑ لیا ہے۔
آسام کے چیف سکریٹری کمار سنجے کرشنا نے ایک بیان جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ 'کچھ قدرتی رکاوٹ کی وجہ سے بھوٹان سے آسام کے زیریں علاقوں میں پانی کا بہاؤ متاثر ہوا ہے'۔
بوڈولینڈ ٹیریٹریل کونسل (بی ٹی سی) کے سابق رکن دھرمنارائن داس نے کہا ہے کہ 'بھوٹان کی حکومت نے لاک ڈاؤن کی وجہ سے سرحدی علاقوں کے لوگوں کو اس سرزمین میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی تھی، جہاں پانی کا سرچشمہ موجود ہے۔ یہ مٹی کے کنال ہیں اور بارش کے موسم میں اس کی بار بار مرمت کی ضرورت ہے'۔
انھوں نے بتایا ہے کہ 'اس مسئلہ کوسفارتی سطحپر اٹھایا جانا چاہئے تاکہ پانی کا بہاؤ متاثر نہ ہو اور کسان پانی کا استعمال کرسکیں'۔
ایک مقامی کارکن انجان گوسومی نے بتایا کہ 'ان اضلاع میں دیہاتیوں کا دارومدار بھوٹان کے دریاؤں پر ہے اور موسم گرما کے دوران پانی کے بہاو میں کمی کے باعث انہیں بہت زیادہ نقصان اٹھانا پڑتا ہے'۔
انہوں نے مزید کہا ہے کہ 'اگر بھوٹان حکومت کے ساتھ دوطرفہ آبی معاہدہ ہو اور پانی کے مناسب بہاؤ کو یقینی بنایا جائے تو اس سے ان دیہاتیوں کی مشکلات حل ہوجائیں گی'۔
واضح رہے کہ بھارت اور بھوٹان کے درمیان صدیوں سے باہمی تعلقات مشترکہ ہیں۔
تاہم دونوں ممالک کے مابین ہونے والی پیشرفت ان لوگوں کی زندگیوں گہرا اثر ڈالے گی۔