مرکز نظام الدین کے حوالے سے میڈیا کوریج کے معاملے میں سپریم کورٹ میں آج سماعت ہوئی۔جمعیۃ علمائے ہند کی عرضی پر سماعت کرتے ہوئےچیف جسٹس آف انڈیا نے کورونا وائرس کے حوالے سے تبلیغی جماعت کے خلاف میڈیا کی کوریج پر سخت تبصرہ کیا۔
مرکزی حکومت کی سرزنش کرتے ہوئے سی جے آئی نے کہا کہ یہ سمجھ نہیں آتا کہ سرکار نے اشتعال انگیز خبروں کے تئیں اپنی آنکھیں کیوں موند رکھی ہیں۔ عدالت عظمی نے کہا کہ آخر سرکار اس بارے میں کیوں کچھ نہیں کرتی۔ سپریم کورٹ نے مرکزی حکومت کے تیسرے حلف نامہ پر بھی عدم اطمینان کا اظہار کیا۔
سماعت کے دوران چیف جسٹس آف انڈیا اے ایس بوبڑے نے کہا کہ ایسے پروگرام دکھائے گئے جو ایک فرقے کو اکساتے اور متاثر کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ غیر جانبدار اور سچی رپورٹنگ کرنا کوئی مسئلہ نہیں ہے لیکن دوسروں کو پریشان کرنے کے لیے ایسا کرنا بڑا مسئلہ ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ یہ اتنا ہی اہم ہے جتنا پولیس اہلکاروں کو لاٹھی دینا۔ عدالت عظمی نے کہا کہ اکسانے والی میڈیا کوریج پر کنٹرول ہونا چاہیے۔
میڈیا کو ریگولیٹ کرنے سے متعلق سرکاری کے اختیارات کے تعلق سےجسٹس بوبڑے نے کہا کہ نظم و نسق کو برقرار رکھنے کے لیے کچھ خبروں پر کنٹرول کرنا ضروری ہے۔ سالیسٹر جنرل تشار مہتا نے بنچ کے سامنے کہا کہ وہ خبروں کے نشر ہونے سے پہلے سنسرشپ نہیں کر سکتے، لائیو شو یا بحث کو قابو نہیں کر سکتے۔ اس پر سی جے آئی نے کہا کہ عدالت تشدد کے معاملے پر فکر مند اور سنجیدہ ہے۔ انہوں نے حکومت سے اس معاملے پر ایک حلف نامہ بھی داخل کرنے کی ہدایت دی۔
مولانا مدنی نے سی جے آئی کے تبصرے پر رد عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ چیف جسٹس کے تبصرے سے ہمارا موقف درست ثابت ہوگیا۔
جمعیۃ کی جاری کردہ ریلیز کے مطابق چیف جسٹس کی سربراہی والی تین رکنی بینچ کے روبرو سماعت کے دوران عدالت نے ایک بار پھر مرکزی حکومت کی جانب سے داخل کردہ حلف نامہ پر اعتراض کیا، جس میں میں کہا گیا ہے کہ لائیو ٹی وی شو کو روکنے کا حکومت کے پاس کوئی میکانزم نہیں ہے نیز کوئی بھی پروگرام نشر ہونے سے قبل اسے روکا نہیں جاسکتا۔ البتہ پروگرام نشر ہونے کے بعد اگر شکایت درج کی جاتی ہے تو اس کے خلاف کیبل ٹی وی نیٹ ورک قوانین کے تحت کاروائی کی جاتی ہے۔