عالمی یوم ارض سنہ 1970 سے منایا جارہا ہے۔ لیکن اس وقت جاری لاک ڈاون کی بدولت، امسال یوم ارض پر یعنی 22 اپریل 2020 کو پہلی بار ایسا ہوگا کہ بھارت کے ساتھ ساتھ پوری دُنیا میں زمین ترو تازہ ہے۔
ماہر ارضیات جان میک کونل، جن کی وجہ سے دنیا بھر میں یہ دن منانے کی شروعات ہوئی تھی، جنت سے یہ منظر دیکھ کر مسکرا رہے ہوں گے۔ کیونکہ آج نہ ہی بادلوں میں مہلک جزیات شامل ہیں اور نہ ہی آلودگی کا کہیں نام و نشان دیکھنے کو مل رہا ہے۔ آکیسجن کی مقدار میں اضافہ ہوگیا ہے۔ اس کی وجہ سے حشرات الارض جوش و خروش میں ہیں۔
اس خوش کن صورتحال کے تناظر میں ہم آج خود سے کئی سوالات پوچھ سکتے ہیں۔ کیا ہم اس کرہ ارض کو تحفظ فراہم کرسکتے ہیں؟ کیا معاشی ترقی کے ساتھ ساتھ پانی اور ہوا کو آلودگی سے بچائے رکھنا ممکن ہے؟ جب ہم احتساب کرتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ فطرت کے ساتھ کھلواڑ کرنے کے نتیجے میں ہم نے اس کرہ ارض پر تباہی مچادی ہے۔ آج انسانی زندگیوں کو جوہری جنگ سے بھی زیادہ خطرہ ماحولیات کی تباہی کی وجہ سے لاحق ہوگیا ہے۔ ماحولیات کی اس تباہی کے اثرات پوری دُنیا میں دیکھنے کو مل رہے ہیں۔
امریکی ماہرلسانیات، فلسفی اور مورخ نوم چومسکی نے حال ہی میں کہا کہ بھارت اور پاکستان سکڑتے ہوئے آبی ذخائر کی وجہ سے (مستقبل میں) نیو کلیئر جنگ کرسکتے ہیں۔ اس تباہی کے آثار نمودار ہونے لگے ہیں۔ یہ کرہ ارض اب مزید تباہی برداشت کرنے کا متحمل نہیں ہوسکتا ہے۔ وبا اور بیماریاں ہمارے لئے قدرت کی طرف سے کچھ عندیے دے رہی ہے۔ قدرت ہمیں سمجھا رہی ہے کہ ہمیں ماحولیات کی تباہی کے منصوبوں سے باز آکر ایک نئی معیشت کو قائم کرنا ہوگا اور ایک نئی دنیا تعمیر کرنی ہوگی۔ ہم یہ نئی دُنیا کیسے بنا سکتے ہیں؟ کیا ہم اس مادی دُنیا ترک کریں؟ کیا ہم اپنی ذمہ داریوں سے دامن چھڑا لیں؟ کیا ہم ٹیکنالوجی کو ترک کر کے جنگل باسی بن جائیں؟ نہیں ایسا کچھ نہیں کرنا ہے۔ کورونا وائرس ایک جان لیوا آفت ہے لیکن یہ آفت بھی ہمیں اندھا دھند چیزوں کی کھپت کرنے سے باز آجانے کا موقعہ فراہم کررہی ہے۔ یہ آفت ہمیں نئی عادات سکھا رہی ہے۔ ان نئے عادات کی بدولت ہماری ہوا آلودگی سے پاک ہوسکتی ہے اور ہمارا پانی شفاف ہوسکتا ہے۔ اس کے نتیجے میں ہمارے شہروں میں چڑیوں کی چچہاہٹ پھر سے سنائی دینے لگے گی۔
موسمیاتی تغیر کی تباہی سے بچنے کے لئے ہمیں پانچ اصولوں کو اپنانا ہوگا۔ ہمیں اپنی زندگیوں اور معیشت کی تعمیر نو کے لئے چیزوں کی کھپت کو کم کرنا ہوگا۔ہمیں چیزوں کو دوبارہ استعمال کرنا سیکھنا ہوگا۔ہمیں معیشت میں ایک نئی جان ڈالنی ہوگی۔ہمیں سوادیشی نظام کو اپنانا ہوگا اور ہمیں ایگرو اکولوجی کو اپنانا ہوگا۔
ہمیں بھارت اور باقی دنیا کی تعمیر نو کےلئے ایک مضبوط گرین اکونامی ( آلودگی سے پاک، قابل تجدید وسائل کا استعمال کرنے) کی ضرورت ہے۔ گزشتہ صدی کا بیشتر حصہ ٹیکنالوجی کی وجہ سے کرہ ارض کی تباہی میں گزر گیا ہے۔ اب ہمیں دونوں کو یعنی ٹیکنالوجی اور کرہ ارض کو ہم آہنگ کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں صنعتی انقلاب کو از سر نو غیر آلودگی اور قابل تجدید ٹیکنالوجی کی بنیادوں پر بپا کرنا ہوگا۔ لیکن اس کی شروعات کہاں سے کی جاسکتی ہے؟ اس کی شروعات کرنے کے لئے سب سے پہلے ہمیں کرہ ارض کے بارے میں جانکاری حاصل کرنی ہوگی۔ یہ کرہ ارض زندہ ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ یہاں صرف آلودگی ہے اور یہاں صرف جنگلات و آبی ذخائز ختم ہورہے ہیں۔ یہ زمین ابھی زندہ ہے اور ہمیں اس کے ساتھ جڑنا ہوگا۔ ہمیں اس زمین، اس کے پہاڑوں اور دیگر وسائل کو تحفظ فراہم کرنا ہوگا۔ یہ زمین اور اسکے وسائل زندہ ہیں لیکن ہمیں ان کی قدر کرنی ہوگی۔ جب اس معاملے میں ہمارا ضمیر زندہ ہوجائے گا۔ تو اس کے بعد دوسرا مرحلہ یہ ہوگا کہ ہم اپنی زمین پر دباؤ کو کم کرنے کے لئے اقدامات شروع کریں۔
ہماری ہر حرکت اور ہماری ہر چیز کے اثرات زمین پر مرتب ہورہے ہیں۔ ہماری تمام تر ترقی کے باوجود حقیقت یہ ہے کہ ماحولیاتی تباہی عروج پر ہے۔ آبی ذخائر، ایندھن اور بجلی کا کم استعمال کرنا نہ صرف ایک دانشمندانہ اقدام ہوسکتا ہے بلکہ اس کے نتیجے میں ہماری بچت بھی ہوگی۔ ہمیں چیزوں کی کھپت کو کم کرنا ہوگا اور ایندھن پر منحصر معیشت کو محدود کرنا ہوگا۔ ہمیں متبادل معشیت کو تلاش کرنا ہوگا۔ اس زمین کے محدود وسائل ہیں اور ان وسائل کا غیر ضروری استعمال اور انہیں لوٹنے کے عمل روکنا ہوگا۔ برعکس صورت میں اس کا خمیازہ ہماری آنے والی نسلوں کو بھی بھگتنا پڑے گا۔ ہمیں اُن چیزوں کو خریدنا بند کرنا ہوگا، جن کی وجہ سے انسانوں پر اور اس کرہ ارض پر منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں۔ یار دکھیں، جب بھی آپ کوئی شئے خریدنے لگیں، تو پہلے سوچیں کہ کیا واقعی آپ کو اس چیز کی ضرورت ہے؟ اور یہ کہ کیا کہیں یہ شئے زمین کے لئے نقصان دہ تو نہیں ہے؟
کھپت کو کم کرنے کا ایک آسان طریقہ یہ ہوسکتا ہے کہ ہم چیزوں کو دوبارہ استعمال کرنا سیکھیں۔ چیزوں کے دوبارہ استعمال کے حوالے سے بھارت میں کئی نرالے طریقوں کو اپنایا جاسکتا ہے۔ ہم کچن سے برآمد ہونے والے کھانے پینے کی بچی کھچی اشیا کو پھینکنے کے بجائے ان کے ذریعے زمین کو زرخیز بنا سکتے ہیں۔ ہم فضلہ، جس میں یوریا کی کافی مقدار ہوتی ہے، سے شہری باغیچوں کو زرخیز بنا سکتے ہیں۔ چیزیں ضائع کرنے سے احتراز کرنا چاہیے۔ اسلئے کوئی بھی چیز پھینکنے سے پہلے ایک منٹ کے لئے رُک جائیں اور سوچیں کہ کہیں ہم اس کا کوئی اور استعمال تو نہیں کرسکتے ہیں۔