عالمی وبا کے باوجود لداخ میں کشیدگی پیدا کرکے چین نے اپنے توسیع پسندانہ عزائم سامنے لائے ہیں۔ ایسے میں روس و امریکہ جیسی بڑی طاقتوں کے ساتھ بھارت کے دفاعی تعلقات پہلی بار انتہائی اہمیت کے حامل ہوگئے ہیں۔ چناچہ وزیرِ داخلہ راجناتھ سنگھ دوسری عالمی جنگ میں روس کی فتح کا پچتھرواں دن منائے جانے کی تقریب (وکٹری ڈے) میں شرکت کیلئے اس ہفتے کی ابتدأ میں روس کے تین روزہ دورے پر روانہ ہوئے۔ تو دوسری جانب امریکہ کے وزیرِ داخلہ مائیک پومپیو نے کہا کہ بھارت، ملیشیأ، انڈونیشیأ اور باالخصوص جنوب چینی سمندری علاقہ کو درپیش چینی خطرے سے نپٹنے کیلئے امریکی افواج کو یورپ سے دیگر جگہوں پر منتقل کیا جارہا ہے ۔
22-24 جون کے اس ماسکو دورے کے دوران راجناتھ سنگھ نے ملک کے نائبِ وزیرِ اعظم یوری بوریسوؤ کے ساتھ منگل کو میٹنگ کرنے کے بعد یوں ٹویٹ کیا 'نائبِ وزیرِ اعظم کے ساتھ میرا تبادلۂ خیال بہت مثبت اور ثمربار رہا۔ مجھے یقین دہانی کرائی گئی ہے کہ جاری ٹھیکوں کو بنائے رکھا جائے گا اور بنائے ہی نہیں رکھا جائے گا بلکہ مختصر مدت میں انکی تعداد کو آگے بڑھایا جائے گا۔انہوں نے مزید کہا کہ بھارت کی سبھی تجاویز پر روس کا مثبت ردِ عمل آیا ہے۔ راجناتھ سنگھ اور بوریسوؤ سائنس اور تیکنالوجی سے متعلق بھارت-روس اعلیٰ سطحی کمیٹی کے مشترکہ سربراہ ہیں۔
اس دوران اس بات کا کوئی خلاصہ نہیں کیا گیا ہے کہ بھارت کا روس سے کیا مطالبہ ہے البتہ یہ بات آسانی سے تصور کی جاسکتی ہے کہ جن معاملات کو زیرِ بحث لایا گیا ہوگا ان میں زمین سے ہوا میں دور تک مار کرنے والا ایس400- ٹرمف میزائل نظام شامل ہوگا۔ بھارت اور روس کے 2018 کے سالانہ دو طرفہ سمِٹ کے حاشیہ پر وزیرِ اعظم نریندرا مودی اور روسی صدر ولادمیر پوتن نے نئی دہلی میں 5.4 ارب ڈالر کے میزائل سودا پر دستخط کئے تھے۔ جنوری 2018 میں امریکی انتظامیہ کے اپنے حریفوں کا پابندیوں کے ذریعہ توڑ کئے جانے کے قانون (کونٹرنگ امیریکاز ایڈورسریز تھرو سینکشنز یا سی اے اے ٹی ایس اے) کے نافذ العمل ہوجانے کے بعد بھارت اور روس کی ایس 400- میزائل ڈیل سے متعلق قیاس آرائیاں شروع ہوگئی تھیں۔ سی اے اے ٹی ایس اے کا نشانہ وہ ممالک ہیں کہ جو روس،ایران اور شمالی کوریا کی دفاعی کمپنیوں کے ساتھ کاروبار کرتے ہیں۔
امریکی سینیٹروں کے ایک گروہ نے بقول اُن کے یوکرین اور شام میں جاری جنگ میں ماسکو کی لگاتار شمولیت اور 2016 کے امریکی صدارتی انتخاب میں اسکی مبینہ مداخلت کی وجہ سے روس پر پابندیاں لگادی ہیں۔
گزشتہ سال جون میں امریکہ میں اُس وقت کے پرنسپل ڈپٹی اسسٹنٹ سکریٹری برائے جنوب و وسطی ایشیأ الائس ویلز نے خارجی امور کی سب کمیٹی کے ایوانِ نمائندگان (ہاوس آف ریپریزنٹیٹیوز ہاوس فارئن افیئرس سب کمیٹی) کے سامنے ایک سرکاری بیان میں کہا کہ ایس400 دفاعی نظام کا سودا تیزی سے بڑھتے ہوئے بھارت-امریکہ تعلقات کو محدود کرسکتا ہے۔ ایک خاص وقت پر شراکت داری کے حوالے سے اسٹریٹجک انتخاب کرنا ہوتا ہے اور اس بارے میں بھی اسٹریٹجک انتخاب کرنا ہوتا ہے کہ ایک ملک کون سے ہتھیار اور نظام اپنانے جارہا ہے۔
اطلاعات کے مطابق امریکہ نے بھارت کو زمین سے فضا میں مار کرنے کی صلاحیت والا ایم آئی ایم۔104ایف پیٹریاٹ (پیک۔3) میزائل دفاعی نظام اور ٹرمنل ہائی الٹیٹیوڈ ائریا ڈیفنس (ٹی ایچ اے اے ڈی) فراہم کرنے کی پیش کش کی تھی تاہم بھارت نے روس کے ساتھ ایس 400 سودا پر آگے بڑھنے کا فیصلہ کیا۔ ماہرین کے مطابق ایس 400 اس وقت دنیا میں موجود اعلیٰ ترین ہوائی دفاعی نظاموں میں شامل ہے۔ یہ در اصل ایک ملٹی فنکشنل ریڈار کا پتہ لگانے اور اسے نشانہ بنانے کا خود مختار نظام، اینٹی ائر کرافٹ میزائل نظام، لانچرس اور کمانڈ و کنٹرول سنٹر کو مربوط کرنے والا جامع نظام ہے اور اس میں تہہ دار دفاع کھڑا کرنے کیلئے تین طرح کے میزائل چلانے کی صلاحیت ہے۔ army-technology.com ویب سائٹ پر اس ہتھیار کی صلاحیتوں سے متعلق یہ وضاحت درج ہے ۔ یہ دفاعی نظام 30 کلومیٹر کی بلندی پر اور 400کلومیٹر کی حدود میں ہر طرح کے فضائی نشانوں، بشمولِ اینٹی ائر کرافٹ ،بغیرِ پائلٹ کی فضائی گاڑیوں(یو اے وی) اور بیلسٹک و کروز میزائل کے، کام کرسکتا ہے۔ ایس400- سابق روسی فضائی دفاعی نظام کے مقابلے میں دوگنا مؤثر ہے اور اسے پانچ منٹ میں کام پر لگایا جاسکتا ہے۔ اسے بحری اور ہوائی فوج کے موجودہ اور مستقبل کے دفاعی نظاموں کے ساتھ بھی مربوط کیا جاسکتا ہے۔
واشنگٹن میں گذشتہ سال اکتوبر میں ایک تقریب پر وزیرِ خارجہ جئے شنکر نے کہا کہ بھارت نے ایس۔400 کے معاملے پر امریکہ کے ساتھ بات کی ہے اور وہ منوانے کی اسکی طاقت کے معقول حد تک قائل ہیں۔ ایک روسی صحافی کے سوال کے جواب میں جئے شنکر نے کہا کہ مجھے امید ہوگی کہ لوگ اس بات کو سمجھیں گے کہ یہ خاص لین دین ہمارے لئے کیوں اہم ہے، لہٰذا میں سمجھتا ہوں کہ آپکا مجھ سے یہ سوال فرضی ہے۔
اس کے بعد گذشتہ سال نومبر میں امریکی وزارتِ داخلہ کے ایک سینئر عہدیدار کے حوالے سے میڈیا میں آئے اس بیان میں جس میں کہا گیا کہ سی اے اے ٹی ایس اے پابندیوں کے نافذ العمل ہونے کا وقت تجویز نہیں ہوا ہے اور یہ حتمی نہیں ہے ۔ اس طرح امریکہ نے بھارت پر سی اے اے ٹی ایس اے کے تحت پابندیاں نہ لگانے کا اشارہ دیا۔ اس عہدیدار نے کہا کہ بھارت کو روس کی جاسوسی کو روکنے کیلئے دفاعی نظام کو سخت کرنا ہوگا۔
امیجن انڈیا انسٹیچیوٹ کے صدر اور امریکہ۔بھارت پولیٹکل ایکشن کمیٹی کے بانی ممبر و ڈائریکٹر رابندر سچدیو کے مطابق ایس400 کے سودا پر امریکہ کا بھارت کو استثنیٰ کہا گیا یا نہ کہا گیا، جہاں تک سی اے اے ٹی ایس اے کی پابندیوں کا تعلق ہے اسے اس معاملے پر آگے بڑھنے کی اجازت دی گئی ہے۔ سچدیو نے راجناتھ سنگھ کے دورۂ روس کے بعد ای ٹی وی بھارت کو کہا کہ یہ (اجازت) اس پیغام کے ساتھ دی گئی ہے کہ مستقبل میں بھارت کو سی اے اے ٹی ایس اے کی دفعات کے مطابق روس سے دفاعی خریداری میں تخفیف کرنا چاہیئے‘‘۔ اُنہوں نے یہ بھی کہا کہ مذاکرات کے دوران امریکہ نے موجودہ جغرافیائی سیاسی صورتحال (جیو پولیٹکل سچویشن) کی وجہ سے ایس 400- کے سودا کو ہری جھنڈی دکھائی۔ سچدیو نے کہا’’ اُس (امریکہ) نے بھارت سے یہ یقین دہانی لے لی ہے کہ وہ ایران پر واشنگٹن کی عائد کردہ پابندیوں کی مکمل تعمیل کرے گا‘‘۔