آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کی مجلس عاملہ کی میٹنگ میں کئی اہم فیصلے کیے گئے ہیں جس میں یہ اہم ترین فیصلہ بھی شامل ہے۔
عالمی وبا کورونا وائرس کے دوران مسلم پرسنل لا بورڈ نے زوم پر مجلس عاملہ کا اجلاس منعقد کیا اور متعدد امور و مسائل پر غور و خوض کے بعد کئی اہم فیصلے کئے۔
دو دن سے جاری اس میٹنگ کی صدارت بورڈ کے صدر مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی نے کی اور کاروائی کو جنرل سکریٹری مولانا محمد ولی رحمانی نے چلایا۔
بورڈ کے جنرل سکریٹری اور متعدد ارکان عاملہ نے الٰہ آباد ہائی کورٹ کی سی بی آئی (لکھنؤ) کے بابری مسجد انہدام کے نامزد ملزموں سے متعلق فیصلہ پر سخت حیرت اور دکھ کا اظہار کیا۔
بورڈ کے اجلاس میں کہا گیا ہے کہ 'کورٹ نے متعدد واقعاتی شہادتوں اور گواہوں کے بیانات اور خود ملزمین کے اقبال جرم کے باوجود ناکافی ثبوت کی بنا پر تمام ملزمین کو بری کردیا۔ نہ جانے کورٹ کس طرح کی شہادتوں کو معتبر سمجھتا ہے'۔
آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کی پریس ریلیز بورڈ نے اتفاق رائے سے فیصلہ کیا کہ سی بی آئی اس فیصلے کو چیلنج کرے یا نہ کرے، بورڈ اس ناقابلِ فہم فیصلے کو ہائی کورٹ میں چیلنج کرے گا۔
بورڈ کے اجلاس میں ملک کی عدالتوں میں مسلم پرسنل لا سے متعلق جاری مقدمات کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا اور قانونی کمیٹی کو ہدایات جاری کی گئیں۔
لیگل کمیٹی کے کنوینر یوسف حاتم مچھالا نے سابری مالا کیس کے ریویو سے متعلق ایک تفصیلی نوٹ عاملہ کے سامنے پیش کیا اور کہا کہ اس میں مذہبی آزادی، دستور کی دفعہ 25 کا دائرہ اور کسی مذہب کے لیے کیا ضروری اور لازمی ہے جیسے سوالات زیربحث آئیں گے۔
اس فیصلے کا اثر مسلمانوں اور تمام مذہبی اقلیتوں کے ساتھ اکثریتی طبقہ کی مذہبی آزادی پر بھی پڑے گا۔ تفصیلی غورخوض کے بعد فیصلہ کیا گیا کہ بورڈ بھی اس مقدمہ میں بحیثیت مداخلت کار شامل ہوگا۔
عاملہ کے اجلاس میں اس اندیشہ کا اظہار بھی ہوا کہ رام مندر اور دفعہ 370 کے بعد اس حکومت کا اگلا نشانہ یونیفارم سول کوڈ ہوسکتا ہے۔
اس کے پیش نظر طے کیا گیا کہ اس سلسلے میں سیاسی جماعتوں کے علاوہ دیگر مذہبی طبقات، اقلیتوں اور سول سوسائٹی کے افراد سے تفصیلی ملاقاتیں کی جائیں۔
نیز ایک تکثیری سماج کے لیے یونیفارم سول کوڈ کتنا مہلک اور نقصاندہ ہوسکتا ہے اس پر رائے عامہ ہموار کرنے کا مسئلہ بھی زیربحث آیا۔
یونیفارم سول کوڈ کے اثرات سے نمٹنے کے لیے جنرل سکریٹری بورڈ کو مجاز گردانا گیا کہ وہ اس کے لیے ایک کمیٹی بنادیں تاکہ اس پر سیرحاصل کام کیا جاسکے۔
اجلاس میں حکومت کی طرف سے سی آرپی سی اور آئی پی سی میں اصلاحات کے لئے مرکزی حکومت کی قائم کردہ کمیٹی کا مسئلہ بھی زیربحث آیا۔
اکثر ارکان کا خیال تھا کہ کمیٹی کی مینڈیٹ کافی وسیع الاطرف ہے اور اس سے یہ اندیشہ بجاطور پر لاحق ہے کہ اس کی سفارشات بہت دور رس نتائج اور مضمرات کی حامل ہوں گی۔
ملک کے ماہرین قانون اور دانشوروں نے کمیٹی میں شامل افراد اور کمیٹی کے مینڈیٹ کو لے کر متعدد اندیشوں کا اظہار کیا ہے۔
ارکان عاملہ کا بھی یہی خیال تھا کہ مسلمان بھی ان سفارشات کی زد میں آسکتے ہیں چنانچہ فیصلہ کیا گیا کہ ماہرین قانون اور علماء پرمشتمل ایک کمیٹی قائم کرے اور سول سوسائٹی اور ماہرین قانون کے ساتھ مل کر اس مسئلہ کے تدارک کے لیے کام کیا جائے
اجلاس میں مساجد، مقابر، عیدگاہوں اور قبرستانوں سے متعلق مقدمات اور عدالتوں کے رویہ کا بھی جائزہ لیا گیا اور اہم فیصلہ کیے گئے۔
اجلاس کی ابتدا میں جنرل سکریٹری بورڈ نے اس درمیان بورڈ کے جو ارکان، اہم دینی و ملی شخصیات رحلت فرماگئیں، ان کے تعلق سے ایک تجویز تعزیت پیش کی اور صدر بورڈ نے ان کے حق میں دعائے مغفرت کی۔