عوامی مفاد اور ریاستی استحکام کے نام پر فیس بک کو روکنے کے بعد میانمار کی فوج نے بغاوت میں اقتدار پر قبضہ کرنے کے چند دن بعد ہی ٹویٹر اور انسٹاگرام کو بلاک کرنے کا حکم دے کر انٹرنیٹ کریک ڈاؤن کو مزید بڑھا دیا ہے۔
ایک رپورٹ کے مطابق اب میانمار میں لوگوں کو فیس بک، میسنجر، انسٹاگرام اور واٹس ایپ تک اس ملک کے سب سے بڑے ٹیلی کام آپریٹر ایم پی ٹی پر رسائی ممکن نہیں رہی۔
میانمار میں فیس بک کے دو کروڑ 70 لاکھ صارفین ہیں تاہم اس پر پابندی سات فروری تک برقرار رہے گی میانمار فوجی حکومت نے دعویٰ کیا ہے کہ فیس بک ملک میں عدم استحکام میں کردار ادا کررہی تھا جس کے باعث اس پر پابندی عائد کی گئی ہے۔
واضح رہے کہ میانمار میں فیس بک کے دو کروڑ 70 لاکھ صارفین ہیں تاہم اس پر پابندی سات فروری تک برقرار رہے گی۔
جمعہ کے روز میانمار کی وزارت ٹرانسپورٹ اور مواصلات نے ملک میں موبائل نیٹ ورکس اور انٹرنیٹ سروس فراہم کرنے والوں کو ٹویٹر اور انسٹاگرام کو روکنے کا حکم دیا، سی این این نے ناروے کی کمپنی ٹیلی نار کے حوالے سے اطلاع دی جو ملک میں موبائل خدمات پیش کرتی ہے۔
فیس بک کے ایک ترجمان نے بتایا کہ 'ہم جانتے ہیں کہ میانمار میں کچھ لوگوں کو فیس بک تک رسائی متاثر ہوئی ہے، ہم انتظامیہ سے اس کو بحال کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں، تاکہ عوام کو اپنے پیاروں سے رابطے کے ساتھ ساتھ اہم تفصیلات تک رسائی مل سکے'۔
فوجی حکومت کے اس اقدام کے بعد ٹویٹر نے کہا کہ اس حکم نامہ سے ٹوئٹر ادارے کو 'گہری تشویش' ہے۔
ٹوئٹر نے کہا کہ اس سے عوامی سطح پر گفتگو اور لوگوں کی آواز کو سننے کے حقوق کو نقصان پہنچتا ہے کیوں کہ دنیا بھر میں اوپن انٹرنیٹ تیزی سے خطرے کی زد میں ہے۔ ہم حکومت کی زیرقیادت تباہ کن بندشوں کے خاتمے کے لئے وکالت جاری رکھیں گے'۔
میانمار میں 53 ملین افراد کے فیس بک کو بلاک کرنے کے اقدام کے بعد وہاں کے لوگوں کی ناراضگی کو ختم کرنے کے لیے ایسا کیا گیا ہے۔
واضح رہے کہ دو فروری کو فیس بک نے میانمار کی فون کے اقدامات کی حمایت کرنے والے ایک ٹی وی اسٹیشن سے متعلق اکاؤنٹ کو بین کردیا تھا۔
اس وقت فیس بک کے ایک ترجمان نے کہا تھا کہ کمپنی کی جانب سے میانمار کے سیاسی حالات کا باریک بینی سے جائزہ لیا جارہا ہے جبکہ گمراہ کن تفصیلات اور مواد کی روک تھام کی جارہی ہے تاکہ تناؤ مزید بڑھ نہ سکے۔
خیال رہے کہ اس قبل بھی 28 اگست سنہ 2018 کو فیس بک نے میانمار میں نفرت انگیز تقاریر اور غلط معلومات پھیلانے والے 18 اکاؤٹز، 52 پیجز اور ایک انسٹاگرام اکاؤنٹ کو بند کردیا تھا، ان اکاؤنٹز اور پیجز کو ایک کروڑ 20 لاکھ افراد فالو کررہے تھے۔
میانمار کی فوج نے پیر کی صبح ایک بغاوت کا آغاز کیا اور آنگ سان سوکی، ون مائنٹ اور نیشنل لیگ برائے جمہوریہ (این ایل ڈی) کے دیگر اراکین کو حراست میں لیا۔
فوج نے آٹھ نومبر کو ہونے والے عام انتخابات کے دوران مبینہ ووٹرز کی جعلسازی کے خلاف 'کارروائی' کرنے کا عزم کرتے ہوئے ملک میں ایک برس کی ایمرجنسی کا بھی اعلان کیا جس میں سوکی کی جماعت نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی نے زبردست کامیابی حاصل کی۔
فوج نے یہ بھی کہا کہ وہ جمہوری نظام کے لیے پرعزم ہے اور ہنگامی حالت ختم ہونے کے بعد نئے اور منصفانہ انتخابات کے انعقاد کا عزم کیا ہے۔
خیال رہے کہ میانمار میں فوج نے یکم فروری کی صبح جمہوری طور پر منتخب حکومت کے خلاف بغاوت کرتے ہوئے اقتدار پر قبضہ کرلیا تھا اور آنگ سانگ سوکی اور صدر سمیت ان کی جماعت این ایل ڈی کے دیگر رہنماؤں کو حراست میں لے لیا تھا۔
واضح رہے کہ میانمار میں کئی دہائیوں سے فوج کی حکمرانی تھی اور اب جمہوری حکومت کی امید پیدا ہوئی تھی کہ فوج نے انتخابی نتائج کو ماننے سے انکار کرتے ہوئے بغاوت کردی اور سیاسی رہنماؤں کو نظر بند کردیا۔
وہیں دوسری جانب اقوام متحدہ، برطانیہ اور یورپی یونین نے فوجی بغاوت کی مذمت کرتے ہوئے ملک بھر میں بدامنی پھیلنے کے خدشے کا امکان ظاہر کیا۔