یہ دُنیا مانو جسم ہے اور دہلی اسکی جان ، ایسا لگتا ہے کہ جب مرزا غالب نے یہ لازماں مصرعہ لکھا تھا تو انہوں نے گویا آنے والے وقت میں بھی دہلی کی خاص اہمیت کو برقرار رکھنے کی پیشن گوئی کی تھی۔
اب جبکہ دہلی میں اسمبلی انتخابات ہونے جارہے ہیں، پوری قوم کی نظریں اس پر ٹکی ہوئی ہیں۔ ایک ایسے وقت میں جب قومی سطح پر، یہاں تک کہ خود دہلی میں ،معاشرتی و سیاسی تنائو کے مہیب سائے نظر آرہے ہیں۔دہلی میں 70 اراکین پر مشتمل اسمبلی کے انتخاب کے لیے 8فروری کو رائے دہی ہوگی ۔
یہ الیکشن ایسے وقت میں ہورہے ہیں جب متنازعہ شہریت قانون اور دیگر معاملات پر بحث و مباحثے نے لوگوں کو سڑکوں پر آنے پر مجبورکردیا ہے۔
دوسری جانب ملک کی اقتصادی حالت بھی کافی عرصے سے مسلسل تنزل کی جانب جارہی ہے۔حالانکہ یہ تاثر دیا جارہا ہے کہ دہلی انتخابات کا تعلق صرف دہلی کے مقامی مسائل سے ہے۔لیکن حقیقت میں ان انتخابات کو متذکرہ معاملات یعنی بڑے قومی مسائل کے تناظر میں بھی دیکھا جارہا ہے۔ اسی طرح انتخابی نتائج کو بھی قوم کو درپیش ان گنجلک مسائل کے تناظر میں ہی دیکھا جائے گا۔
دہلی اہم کیوں ہے اور موجودہ حالات میں کیوں زیادہ اہمیت کا حامل ہے:
دہلی اسمبلی انتخابات کو ہمیشہ ایک علامتی اہمیت حاصل رہی ہے کیونکہ ایک تو یہ ملک کی سیاسی سرگرمیوں کا مرکز ہے اور دوسرا یہ قومی میڈیا اداروں کا مرکز ہے۔اسی لئے اسے سیاسی اہمیت حاصل ہے۔
بلکہ اب کی بار دہلی اسمبلی انتخابات کی اہمیت علامتی سے بھی کچھ زیادہ ہے ۔ ایک تو اِن انتخابات کے نتیجے میں ملک میں رائے دہی کے عمومی رجحان سے متعلق قائم مفروضے کا امتحان ہوگا۔
دوسرا یہ کہ ان انتخابات کے نتیجے میں 'متبادل سیاست' کی کامیابی کے امکان بارے میں کوئی واضح منظر پیش آئے گا۔ تیسرا یہ کہ ان انتخابات کے نتیجے میں بھی پتہ چلے گا کہ ملک کے وفاقی نظام کا مستقبل کیا ہوگا۔
دہلی کے رائے دہندگان کے بارے میں ایک عمومی تاثر ہے کہ وہ ریاستی اور قومی انتخابات میں متضاد رائے کا اظہار کرتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ دہلی کے رائے دہندگان نے مقامی اور قومی نوعیت کے مسائل کے درمیان ایک لکیر کھینچی ہوئی ہے۔
رائے دہندگان کا اس طرح کا رویہ حکمران عام آدمی پارٹی کے لیے سود مند ثابت ہورہا ہے۔کیونکہ یہ پارٹی صرف مقامی مسائل پر توجہ مرکوز کی ہوئی ہے۔ جبکہ بھارتی جنتا پارٹی( پی جے پی )نے ہمیشہ مقامی اور قومی مسائل کے حوالے سے امتیاز کو مٹانے کی کوشش کی ہے۔
بی جے پی عمومی طور پر مرکزی حکومت کی کارکردگی کی بنا پر رائے دہندگان کو لبھانے کی کوشش کرتی ہے۔وہ ایک واحد لیڈر شپ کو مضبوط کرنے پر زور دیتی ہے اور اسکی وجہ سے مرکز اور ریاست کی لیڈر شپ کے درمیان کوئی ہم آہنگی پیدا نہیں ہوپارہی ہے۔پی جے پی دہلی کے ووٹروں سے کہتی ہے کہ دہلی کی ضروریات کو پورا کرنے اور یہاں کے مسائل حل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ مرکز میں قائم حکمران جماعت کو ہی دہلی اسمبلی کے لیے بھی منتخب کیا جائے گا۔
دوسری جانب اروند کیجروال انتخابی مہم کے دوران اپنی ساری توجہ دہلی میں اپنی پارٹی کی پچھلی کارکردگی پر مرکوز کیے ہوئے ہیں اور وہ اسی کارکردگی کی بنا پر ووٹ مانگ رہے ہیں۔ بی جے پی بار بار قومی نوعیت کا بیانیہ دہرا کریہ تاثر دینے کی کوشش کررہی ہے کہ عام آدمی پارٹی اور کانگریس 'قومی مفادات' سے کھلواڑ کررہی ہیں۔
متبادل سیاست کو درپیش مشکلات
چونکہ انتخابی سیاست بالآخر اعداد و شمار کا کھیل ہے ۔اس لیے طبقے کی بنیاد پر ووٹ مانگنے کا فائدہ ملتا ہے۔لیکن ' وکاس 'ایک ایسا جادوئی لفظ ہے ، جس کی وجہ سے بلا لحاظ مذہب و ملت لوگ متحد ہوجاتے ہیں۔
'غریبی ہٹاؤ' اور 'سب کا ساتھ ، سب کا وکاس' جیسے نعرے اس حکمت عملی کے تحت لگائے جاتے ہیں۔ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ عام آدمی پارٹی بھارتی سیاست کے ایک ڈرامائی مرحلے کے نتیجے میں معرض وجود آئی ہے۔ سیول سوسائٹی کے مختلف طبقے تین علتوں ، پیسے، طاقت اور اقرباء پروری کے ناجائز استعمال کے خلاف مجتمع ہورہے تھے ۔
اس دور میں معرض وجود آنے والی عام آدمی پارٹی کی سنہ 2010 کی جیت نے بھارتی سیاست کا نقشہ ہی بدل کے رکھ دیا ۔سیاست پیسے کا کھیل نہیں رہا بلکہ یہ عوام کے ساتھ کیے گئے وعدوں کو نبھانے پر لڑا جائے گا۔اس پارٹی کے بارے میں یہ تاثر پیدا ہوگیا کہ وہ عوام کو سہولیات بہم پہنچانے میں یقین رکھتی ہے اور یہی اس کی سیاست ہے۔ اس بات کو عملانے میں یہ پارٹی کس حد تک کامیاب یا ناکام ہوگئی ہے ، اس سے قطع نظر یہ بات طے ہے کہ اس پارٹی نے سیاست کا پانسہ پلٹ دیا۔
سب سے اہم یہ ہے کہ ترقیاتی کام کاج کی وجہ سے عام آدمی پارٹی نے سماج میں اپنی پہچان بنالی اور اسے قبول عام حاصل ہوا۔اس سے پہلے اس طرح کی کامیابی سیاسی جماعتوں کو نصیب نہیں ہوئی تھی۔
ماہر سماجیات امیت آہوجہ اور پردیپ چبر نے سماج کے تین وسیع طبقات کی نشاندہی کی ، جن کے لیے ووٹ دینے کی ترجیحات الگ الگ ہوتی ہیں۔
معاشرتی اور اقتصادی لحاظ سے حاشیئے پر کھڑے لوگوں کے طبقے کی نظر میں ووٹ دینا اُن کاحق ہے۔ درمیان میں کھڑے طبقے کا ماننا ہے کہ ووٹ دیکر ریاستی وسائل سے فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے۔ جبکہ معاشرتی اور اقتصادی منظر نامے پر اعلی درجے پر کھڑے لوگوں کی نظر میں ووٹ دینا بحیثیت شہری اُن کا فرض ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ عام آدمی پارٹی کتنی دیر تک ان تینوں طبقوں پر مشتمل رائے دہندگان سے فائدہ اٹھاسکتی ہے۔ اس وقت عام آدمی پارٹی اسپتالوں اور اسکولوں کی تعمیر اور بجلی و پانی کی فراہمی سے متعلق اپنی حکومت کی کارکردگی کی بنا پر ووٹ مانگ رہی ہے لیکن کیا وہ اس بات کو نظر انداز کرسکتی ہے کہ ملک بلکہ خود دہلی میں مذہبی شناخت کے نام پر لوگ مجتمع ہورہے ہیں اور اس ضمن میں متعدد واقعات بھی رونما ہورہے ہیں۔
کیا شاہین باغ، جے این یو اور جامعہ ملیہ میں احتجاجی لہر کی وجہ سے ایک بار پھر مرکز کو فائدہ حاصل ہوگا؟
دہلی اسمبلی انتخابات ایک ایسے وقت پر ہورہے ہیں، جب ملک میں غیر معمولی حد تک سیاسی تناؤ ہے۔ اس تناؤ کا مرکز خود دہلی ہے۔ پہلے جواہر لعل نہرو یونیورسٹی میں فیس میں اضافے کے خلاف تحریک شروع ہوگئی اور اسکے بعد شہریت ترمیمی ایکٹ اور شہریوں کی قومی رجسٹر کے خلاف شاہین باغ میں احتجاج شروع ہوا۔یہ سب کچھ دلی کے اندر ہورہا ہے۔
عام آدمی پارٹی خود کو جس قدر شہریت ترمیمی ایکٹ اور شہریوں کی قومی رجسٹر جیسے مسائل اور ٹکڑے ٹکڑے گینگ کے بیانیہ سے دور رکھنے کی کوشش کررہی ہے ، تاہم بی جے پی اتنی ہی شدت کے ساتھ ان مسائل کا تذکرہ کرتے ہوئے دلی اسمبلی الیکشن لڑ رہی ہے۔
ایک جانب عام آدمی پارٹی اپنی حکومت کی کارکردگی کی بنا پر الیکشن مہم چلارہی ہے اور دوسری جانب بی جے پی شہریت ترمیمی ایکٹ اور شہریوں کی قومی رجسٹر کے خلاف احتجاج کرنے والوں کی مذمت نہ کرنے والی جماعتوں کو 'قوم دشمن' قرار دے رہی ہے۔
عام آدمی پارٹی نے شہریت ترمیمی ایکٹ اور شہریوں کی قومی رجسٹرکے معاملے پر بحث و مباحثے کا حصہ بننے سے انکار کرتے ہوئے بی جے پی پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ ان مسائل کے ذریعے ووٹروں کو گمراہ کررہی ہے اور ترقیاتی عمل میں اپنی ناکامیوں کو چھپانے کی کوشش کررہی ہے۔
لیکن کیا خود کو حساس معاملات سے دور رکھنے کی کوشش کرنا کیا عام آدمی پارٹی کی محض ایک انتخابی حکمت عملی ہے؟ بغور دیکھا جائے تو عام آدمی پارٹی نے خود کو دفعہ 370کو ختم کرنے، بالاکوٹ فضائی حملہ، جے این یو اور جامعیہ ملیہ میں طلبا پر حملوں اور شاہین باغ میں جاری احتجاج جیسے حساس معاملات سے دور رکھا ہوا ہے۔جن پر پچھلے کئی ماہ کے دوران لوگ یک جٹ ہورہے ہیں ۔
یہ صاف نظر آرہا ہے کہ اس پارٹی نے خود کو اعتدال کے زمرے میں رکھا ہوا ہے اور خود کو دونوں یعنی دائیں بازوکی جماعتوں اور بی جے پی کی قوم جارحانہ پرستی سے دور رکھا ہوا ہے شاید وہ اُس سیاسی خلا میں اپنے لیے جگہ بنانے اور خود کو فٹ کرنے کی کوشش کررہی ہیں، جو کانگریس پارٹی کے تباہ ہوجانے کے نتیجے میں پیدا ہوگیا ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ بی جے پی نے دہلی اسمبلی کے گزشتہ کئی انتخابات میں(پچھلے چار انتخابات میں30سے35فیصد ووٹ شرح حاصل کرتے ہوئے) استحکام بنائے رکھا ہے ۔
جبکہ کانگریس ڈرامائی انداز میں زوال پذیر ہوگئی ہے۔ کانگریس کو سنہ 2003کے دہلی اسمبلی انتخابات میں ملنے والے ووٹوں کی شرح 48.1فی صد تھی اور سنہ 2015 میں اسے حاصل ہونے والے ووٹوں کی شرح محض 9.7فی صد رہی۔
اس وقت بھی کانگریس پارٹی کی انتخابی مہم ٹھنڈی ہے۔ اس مہم میں اس کے زیادہ تر بڑے چہرے دکھائی نہیں دے رہے ہیں۔ اس بار بھی کانگریس پارٹی کا بچا کچا ووٹ عام آدمی پارٹی کے حصے میں جاتا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔ اس دوران بی جے پی کی جانب سے مذہبی بنیاد پر لوگوں کو اپنے حق میں کرنے کے نتیجے میں دہلی کے اقلیتی طبقے کا عام آدمی پارٹی کے قریب جانے کا امکان ہے۔ جبکہ کانگریس دور دور تک کہیں دکھائی نہیں دے رہی ہے۔
انتخابی نتائج کئی لحاظ سے اہمیت کے حامل ہونگے
انتخابی نتائج جو 11فروری کو منظر عام پر آرہے ہیں، کئی لحاظ سے قومی سطح پر اہمیت کے حامل ہونگے۔ سب سے پہلے اس کا اثر بھارت میں سیاسی جماعتوں کے لب و لہجے پر پڑے گا۔
انتخابی نتیجے سے یہ بھی پتہ چلے گا کہ ووٹ ڈالنے کے لیے شہریوں کی ترجیحات کیا ہیں۔ کیا وہ ترقی کے بجائے مذہبی شناخت کے نام پر ووٹ دیں گے یا پھر مذہبی شناخت پر ترقی کو ترجیح دیں گے۔ یہ بھی پتہ چلے گا کہ کیا ترقی اور شناخت جیسے متضاد معاملات سے متعلق ترجیحات وقت بدلنے کے ساتھ ساتھ بدل جاتی ہیں یا نہیں۔
حالیہ دنوں تک دہلی کے ووٹروں میں یہ نعرہ خاصا مقبول تھا کہ وزیراعظم کے عہدے کے لیے مودی اور وزیر اعلیٰ کے عہدے کے لیے کیجر وال دہلی کے انتخابی نتائج اس بات کا بھی فیصلے کریں گے کہ بھارت میں وفاقی نظام کا مستقبل کیا ہوگا۔
ایک ایسے وقت میں جب ایک پارٹی کی بالادستی کا نظام بی جے پی کی شکل میں لوٹ آیا ہے ( کانگریس کو اس طرح کی بالادستی آزادی کے بعد پہلی دہائی میں حاصل ہوئی تھی )، ایک غیر بی جے پی جماعت یعنی عام آدمی پارٹی کا دہلی میں سرکار قائم کرنا دلچسپ ہوگا۔ کیونکہ خاص بات یہ ہے کہ انتخابی لڑائی طاقتور شخصیات ( مودی بنام کیجروال اور شاہ بنام کیجروال ) کے درمیان لڑی جارہی ہے۔
اگر مقبولِ عام وزیر اعلی جیت جاتے ہیں، تو یہ اس بات کا اشارہ ہوگا کہ رائے دہندگان کی نظر میں مرکزیت کے بجائے مقامی مسائل اور مقامی سیاست کو ترجیح حاصل ہے۔ سچ تو یہ ہے جب دہلی والے ووٹ دے رہے ہوں گے تو بھارت دیکھ رہا ہوگا۔