چار سال سے جیل میں قید مسلم نوجوان شعیب خان کا کہنا ہے کہ انہیں حراست کے دوران اینٹی ٹریررسٹ اسکواڈ کی جانب سے تشدد کا نشانہ بنایا گیا ، ان کے علاوہ اور دو افراد کے ساتھ یہ یہی برتاؤ کیا گیا۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کی زندگی تباہ ہوچکی ہے۔
مہاراشٹرا کے ضلع پوسد میں ستمبر 2015 میں ایک مسلم نوجوان کو بیف پر پابندی کے بعد تین پولیس اہلکاروں کو چاقو سے حملے کرکے زخمی کرنے کی خبریں شائع ہوئی تھیں۔
اسی ماہ 20 سال عبدالمالک کے ساتھ مزید دو افراد ہنگولی کے رہنے والے 28 سالہ شعیب خان اور ویامتال کے 30 سالہ مولانا مجیب الرحمن کو بھی گرفتار کیا گیا تھا۔
ان تینوں کے مقدمہ کو مہاراشٹرا کے انسداد دہشت گردی اسکواڈ کو منتقل کردیا گیا۔ تقریباً چار سال بعد تین افراد کو دہشت گردی کے مقدمات سے بری کردیا گیا ہے۔
21 مئی کو اکولہ کی خصوصی عدالت نے شعیب خان اور مجیب الرحمن کو ممنوعہ سیمی سے تعلق رکھنے کے الزام سے بری کردیا۔ ان تینوں کو غیر قانونی سرگرمیوں کے علاوہ جہاد کی منصوبہ بندی کے بھی الزام کا سامنا تھا۔ لیکن عدالت کا کہنا تھا کہ ان کے پاس اس الزامات کے واضح ثبوت موجود نہیں تھے۔
عبدالمالک کو بھی غیر قانونی سرگرمیوں اور احتیاطی اقدام کے تحت مقدمہ کا سامنا تھا لیکن انہیں تین پولیس والوں کو چاقو سے حملہ کرکے زخمی کرنے کے سلسلہ میں تین سال کی سزا ہوئی۔ مالک نے تین سال آٹھ مہینے جیل میں مقدمے کی سماعت میں گذارے۔ انہیں بھی مجیب الرحمن اور شعیب خان کے ساتھ رہا کردیا گیا۔
ان تینوں کی رہائی پر مقامی زرائع ابلاغ کا رد عمل حیران کن طور پر بدلا ہوا ہے جو 2015 میں گرفتاری کے وقت تھا۔ ایک مراٹھی اخباری نے اس طرح کی سرخی لگائی کہ اے ٹی ایس کی تفتیش کرنے میں غلطی نے نوجوان کی ساڑھے تین سال کی زندگی بربادی کردی اور کہا کہ کیا مہاراشٹرا حکومت بے قصور شعیب کو معاوضہ ادا کرے گی۔
حراست کے دوران اے ٹی ایس کی جانب سے تشدد
نوجوانوں نے گھر لوٹنے کے بعد بتایا کہ کس طرح اے ٹی ایس نے دو ہفتے کی تفتیش کے دوران ان پر تشدد کیا اور انہیں عدالت میں جھوٹے بیانات دینے کے لئے دباؤ ڈالا گیا۔
شعیب خان کہتے ہیں کہ حراست کے دوران مجھ پر کافی دباؤ ڈالا گیا کہ میں عدالت میں جھوٹا بیان دوں۔ انہیں یقین دلایا گیا کہ اگر وہ جھوٹا بیان دیں گے تو انہیں چھوڑ دیا جائے گا اور ان کی خاندان کو ہراساں نہیں کیا جائے گا۔
شعیب خان کہتے ہیں کہ ان کے حراست کے ابتدائی دنوں میں انہیں بیلٹ سے بہت مارا گیا اور ایسے سوالات کئے گئے جس سے انہیں کافی صدمہ پہنچا۔ ان سے کہا گیا کہ جب بنگلہ دیش آزاد ہوا تو اس میں ہندوؤں کی آبادی 4 تا 5 فیصد تھی جو بعد میں گھٹ کر 1 فیصد رہ گئی۔
انہوں نے پوچھا کے باقی کی آبادی کہاں گئی میں اس بارے میں کیا کہہ سکتا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر بنگلہ دیش میں ہندوؤں کی آبادی کم ہورہی ہے تو بھارت میں بھی مسلمانوں کی آبادی کم ہونی چاہئے۔
مجیب الرحمن بھی کہتے ہیں کہ ان کو حراست کے دوران شدید تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور جھوٹے بیانات دینے کے لیے کافی دباؤ ڈالا گیا ۔ یہ سرکاری ایجنسیوں کی مسلم نوجوانوں کے خلاف جایک بڑی سازش ہے
لوگ مجھے اب بھی مجرم کی طرح دیکھتے ہیں
شعیب خان اور مجیت الرحمن شکر گذار ہیں کہ ان کے ساتھ جیل میں ا چھا سلوک کیا گیا لیکن انہیں اس بات کا افسوس ہے کہ انہیں تین سال آٹھ مہینے تک ضمانت نہیں دی گئی۔
ان کا کہنا ہے کہ میرے بھائی کی موت ہوگئی اور میں ان کے آخری رسومات میں شرکت نہیں کرسکا اور میری بہن کی شادی بھی ہوئی میں اس میں بھی شرکت نہیں کرسکا۔ اور پولیس نے میرے گھر پر گہری نظر رکھی تھی اور بار بار میرے گھر والوں کو پریشان کررہی تھی ۔ آخر کار میرے والد نے خودکشی کی دھمکی دی جس کے بعد یہ سلسلہ رکا۔
شعیب خان اور مجیب الرحمن کی گرفتاری ان کی خاندان والوں کو سماجی اور معاشی طور پر کافی پریشان کن ثابت ہوئی۔ مجیب الرحمن کے والد شیخ محبوب کا کہنا ہے کہ میرا تعمیرات کا بزنس تباہ ہوگیا کیونکہ میں ایک دہشت گرد کا والد تھا۔
مجیب الرحمن کے والدین ، بھائی بیوی اور چھوٹے بچے کو ناقابل یقین پریشانی کا سامنا کرنا پڑا خود ان کے دیگر رشتہ داروں کی طرف سے بھی ۔ مجھے واحد مدد ایک انجینئر کی طرف سے ملی جہاں میں ایک سپر وائزر کے طور پر کام کررہا تھا۔
شیخ محبوب عدالت میں مہاراشٹرا حکومت کے خلاف مقدمہ کرنے کی خواہش رکھتے ہیں جس نے ان کے بیٹے کو جھوٹے مقدمے میں پھنسایا اور تقریباً چار سال جیل میں قید رکھا ۔