اردو

urdu

ETV Bharat / bharat

بھارت: 2019 کے ایسے واقعات جس سے ملک ہِل گیا - ۲۰۱۹

ای ٹی وی بھارت کے نیوز ایڈیٹر بلال بھٹ کی قلم سے: 2019 کے اختتام کے موقع پر نریندر مودی قیادت والی حکومت پر ایک  تجزیاتی نظر ڈالتے ہیں۔ مودی حکومت 2019 میں ایسی یادیں چھوڑ جارہی جسے اچھے اور غلط اقدامات کو انجام دینے کے طور پر یاد کیا جائےگا۔ حکومت نے 2019 میں ایسے اقدامات کیے ہیں جس سے تاریخ کے لکھنے کا زبردست مواد مورخین کو حاصل ہوا۔

بھارت: 2019کے ایسے واقعات جس سے ملک ہل گیا
بھارت: 2019کے ایسے واقعات جس سے ملک ہل گیا

By

Published : Dec 31, 2019, 10:11 AM IST

Updated : Dec 31, 2019, 10:30 AM IST

2019 کا آج اختتام پذیر ہونے جارہا ہے، یہ برس اپنے پیچھے بہت سارے واقعات ،اچھے اور برے دونوں طرح کی یادیں چھوڑ کر جارہا ہے۔

بہت ساری قانونی اور آئینی تبدیلیاں، 2019 میں کی گئیں۔ حکومت کی طرف سے سیاست ، مذہب اور ثقافت کے نئے تصورات پیش کیے گئے - بی جے پی نے بہت سارے فیصلے اور اقدامات کیے اور اسے نافذ بھی کیا گیا۔ مگر سال کے اختتام پر منظور کیے گئے شہریت ترمیمی قانون پر مودی حکومت عوام کو اعتماد میں لینے میں ناکام رہی۔

تین طلاق کے فیصلے پر مسلم طبقے کے کچھ لوگوں نے مخالفت کی مگر اس کے خلاف کوئی بڑا ردعمل نہیں دیکھا گیا۔ پہلے کی حکومتوں میں لوگ یہ تصور کرتے تھے کہ لوگوں کے عقائد پر بات نہیں کی جانی چاہئے اور اس پر کسی قسم کا سوال بھی نہیں ہوگا۔ مگر مودی سرکار نے تمام چیزوں کو بالائے طاق رکھ کر مخالف تین طلاق بل کو ایوان زیریں،ایوان بالا سے منظور کیا اور پھر اسے ایک سخت قانون بنایا۔

جب اس قانون کی مخالفت کی گئی تو آوازاٹھانے والوں کو خواتین مخالف کہا گیا اور اس پر جب بحث ہوئی تو قوم مخالف اور ملک کی یکجہتی کو کمزور کرنا بھی قرار دیا گیا۔ ہر وہ مسئلہ جو ملک اور عوام سے جڑا تھا جس پر سوال کیے گئے تھے اس کے جواب میں حکومت نے مخالفین کی قوم پرستی پر ہی سوالیہ نشان لگادیا۔

2019 میں آرٹیکل 370 کو منسوخ کرنا ایک ،ماسٹر اسٹروک، تھا، اور یہ ان تاریخی اقدامات میں سے ایک ہے جو اس حکومت نے انجام دیا۔

370 کو منسوخ کرنے سے قبل کی منصوبہ بندی پیچیدہ تھی۔ حالانکہ اس فیصلے سے قبل اور اس کے بعد کے حالات کا سخت اور منصوبہ بندی کے ساتھ خیال رکھا گیا تھا۔ جس طرح کا انتظام تھا حکومت نے جس طرح کی توقع کی تھی اس کا پانچ فیصد بھی جموں و کشمیر کی سڑکوں پر نہیں دیکھا گیا تھا۔

ریاست کی عوام کا رابطہ ملک اور دنیا سے ٹوٹ گیا تھا، مواصلاتی نظام،موبائیل، لینڈ لائین،انٹرنیٹ کو بند کرکے ریاست کی عوام کو یکا وتنہا کردیا گیا تھا۔

جموں کشمیر کے اہم سیاسی رہنماوں، علحدگی پسندوں اور قومی دھارے میں شامل افراد کو بھی پولیس نے جیل میں ڈال دیا تاکہ وہ کسی طرح کا احتجاج نہ کرسکیں۔
اس کے ساتھ ساتھ جموں کشمیر کو دو مرکزی ریاستوں میں تبدیل کرنے کا فیصلہ بھی چونکا دینے والا تھا۔

انٹرنیٹ ابھی بھی اس خطے میں بند ہے، جس کی وجہ یہ دنیا کا سب سے طویل وقت تک انٹرنیٹ بند رہنے کا علاقہ کہلاتا ہے۔ بین الاقوامی میڈیا نے مودی حکومت کے اس اقدام پر نکتہ چینی کی، لیکن اس کے اثرات کو کم کرنے کے لیے حکومت نے بیانیہ پیش کیا۔

پاکستان کی جانب سے اس معاملے میں خود کو ایک فریق کے طور پر پیش کرنے پر مودی حکومت کو ایسی وضاحت پیش کرنےمیں آسانی ہوگئی کہ، چین ملیشیا اور ترکی کو چھوڑ کر دنیا کی تمام طاقتیں اس فیصلے میں اس کے ساتھ ہیں۔

مسلمانوں اور ہندوں کے مابین قدیم ترین مذہبی تنازعہ رام جنم بھومی اور بابری مسجد کیس کو ایک پیچیدہ انداز میں حل کیا گیا ۔اس تنازعے پر فیصلے سے قبل ایک ایسا نمونہ پیش کیا گیا اور ایسا ماحول بنایا گیا کہ عقیدے کا احترام کرتے ہوئے متنازعہ زمین ہندووں کو دے دینی چاہئے۔ اور اس سلسلے میں کچھ مسلم اسکالرز نے عوامی تبصرے بھی کیے کہ مسلمانوں کو خیر سگالی کے طور پر، رام مندر کی تعمیر کے لیے زمین ہندووں کے حوالے کرنا چاہئے۔ اگرسیاسی مزاحمت کی بات کی جائے تو رام مندر فیصلے کے بعدحکومت 2019 کی مزید سرگرمیوں کو کچھ وقت تک کے لیے روک سکتی تھی۔

سال کے اختتام پر حکومت نے شہریت کے قانون میں ترمیم کرتے ہوئے اس میں یہ شرط رکھی کہ پاکستان،افغانستان،اور بنگلہ دیش کے تمام غیر مسلم تارکین وطن جو 31 ڈسمبر 2014 سے قبل بھارت میں داخل ہوئے انھیں شہریت دی جاے گی۔ مگر اس بار حکومت کو سخت ردعمل کا سامنا کرنا پڑا، ملک بھر میں اس قانون کے خلاف مظاہرے ہوئے اور تشدد ہوا، احتجاجی مظاہروں کے دوران صرف اترپردیش میں 20 شہری ہلاک ہوگئے۔

دونوں ایوانوں میں اس ایکٹ کی منظوری کے بعد ، وزیر داخلہ امت شاہ یہ کہتے رہے کہ غیر مسلموں کو اپنی حفاظت کے لئے پوری دنیا میں کہیں بھی مذہبی ظلم و ستم کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو وہ بھارت کو آنا چاہتے ہیں،وزیر داخلہ کا یہ بیان در حقیقت ملک کی سیکولر بنیاد کو ہلا کر رکھ دیتا ہے۔ ان کا یہ بیان مسلمانوں کے لیے دروازے بند کرنے کے مترادف سمجھا جاتا ہے اور یہاں تک کہ ایسے مسلمان جو ظلم اور ایذا رسانی کے شکار ہیں انھیں بھی بھارت میں داخل ہونے کی اجازت نہیں ہے۔

بلال بھٹ، نیوز ایڈیٹر (ای ٹی وی بھارت) کی خصوصی تحریر

Last Updated : Dec 31, 2019, 10:30 AM IST

For All Latest Updates

TAGGED:

ABOUT THE AUTHOR

...view details