رمضان المبارک کا پہلا عشرہ ختم ہونے کے قریب ہے۔ یہ رحمت والا عشرہ گزشتہ برسوں کے مقابلے بالکل مختلف ہے، کورونا وائرس کی وجہ سے ہرجگہ لاک ڈاؤن ہے ، مساجد سمیت تمام عبادت گاہیں بند ہیں اور روزہ دار مسجد جانے سے قاصر ہیں، گھروں میں ہی عبادت میں مصروف ہیں۔
رمضان المبارک کے بارے میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ''اگر لوگوں کو روزہ (رمضان) کے ثواب کی حقیقت معلوم ہو جائے تو یہ تمنا کرنے لگیں کہ پورا سال رمضان ہی رہے۔“
ایک دوسری حدیث میں ہے کہ رمضان المبارک یہ ایسا مہینہ ہے کہ اس کا پہلا عشرہ رحمت، درمیانہ مغفرت اور آخری جہنم سے نجات کا ہے، جس نے اس مہینے میں اپنے غلام اور نوکر کا کام ہلکا کردیا اللہ اس کی بخشش فرمائے گا اور جہنم سے آزاد کردیں گے۔ ایک دوسری حدیث میں ہے ”ہر چیز کی زکوٰۃ ہے اور جسم کی زکوٰۃ روزہ ہے“
ایک اور حدیث میں ارشاد ہے کہ ”ساری عبادتوں کا دروازہ روزہ ہے۔“ روزہ کی وجہ سے قلب منور ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے ہر عبادت کی رغبت پیدا ہوتی ہے مگر یہ تب ہے کہ روزہ بھی روزہ ہو۔
رمضان المبارک میں یہ کلمات جس قدر ہو سکے کثرت کے ساتھ پڑھنے چاہئیں، کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے پڑھنے کی تاکید فرمائی ہے۔
اَشْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَ اَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدَ رَّسُوْلُ اللّٰہِ
اَسْتَغْفِرُ اللّٰہَ الْعَظِیْمَ
اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْءَلُکَ رِضَاکَ وَالْجَنَّۃَ
اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُبِکَ مِنْ سَخَطِکَ وَ النَّارِ
آپﷺ نے رمضان المبارک کے پہلے عشرے کو رحمت فرمایا اور اللہ کی رحمت ہی وہ بنیادی دولت ہے کہ جو کسی کو مل جائے تو اسے اور کیا چاہے۔ تاریخ میں مشہور واقعہ لکھا ہوا ہے حضرت منصور بن عمارؓ کو وفات کے بعد کسی نے خواب میں دیکھا اور ان سے پوچھا کہ اللہ نے آپ کے ساتھ کیا معاملہ کیا؟ فرمایا اپنے سامنے کھڑا کرکے ارشاد فرمایا اے منصور میرے پاس کیا لیکر آئے ہو میں نے عرض کیا پورے تین سو ساٹھ قرآن مجید کے ختم ، ارشاد فرمایا میں نے تو ان میں سے کسی کو بھی قبول نہیں کیا؟ پھر پوچھا اے منصور میرے پاس کیا لیکر آئے ہو میں نے عرض کیا اڑتیس حج فرمایا میں نے تو ان میں سے ایک کو بھی قبول نہیں کیا؟ پھر پوچھا اے منصور کیا لائے ہو، میں نے عرض کیا آپ کی رحمت کا امیدوار بن کر آیا ہوں، فرمایا اب صحیح جواب دیا ہے جاؤ میں نے تمھاری مغفرت کردی اور اللہ نے اپنی رحمت امت محمدیہﷺ پر رمضان کے پہلے عشرے میں خاص کردیا،اب جو اللہ کی رحمت حاصل کرنا چاہتا ہے وہ اس میں خوب محنت کرے اور للہ کے انعام کو حاصل کرے۔
شیخ الحدیث مولانا زکریا نے لکھا ہے کہ آدمی تین طرح کے ہوتے ہے وہ لوگ جن کے اوپر گناہوں کا بوجھ نہیں، ان کے لئے شروع ہی سے رحمت اور انعام کی بارش ہوجاتی ہے۔
دوسرے وہ لوگ جو معمولی گناہ گار ہیں ان کے لئے کچھ حصہ روزہ رکھنے کے بعد ان روزوں کی برکت اور بدلہ میں مغفرت اور گناہوں کی معافی ہوتی ہے اور تیسرے وہ ہے جو زیادہ گناہ گار ہیں۔ان کے لئے زیادہ حصہ روزہ رکھنے کے بعد آگ سے خلاصی ہو، اور جن لوگوں کے لئے ابتداہی سے رحمت تھی اور ان کے گناہ بخشے بخشائے تھے ان کا تو پوچھنا ہی کیا ان کے لئے رحمتوں کے انبار ہوں گے۔
حضرت ابو سعید خدریؓ سے روایت ہے آپﷺ نے فرمایا؛ جب رمضان المبارک کی پہلی رات ہوتی ہے تو آسمان کے دروازے کھول دئے جاتے ہیں اور ان دروازوں میں سے کوئی دروازہ بھی رمضان کی آخری رات تک بند نہیں کیا جاتا اور کوئی مسلمان بندہ ایسا نہیں باقی رہتا جو ان راتوں میں کسی رات میں نماز پڑھے اور اللہ اس کے ہر سجدے کے بدلے ڈھائی ہزار نیکیاں نہ لکھ دے اور اس شخص کے لئے جنت میں سرخ یاقوت کا ایک مکان بنا دیا جاتا ہے جس کے ساٹھ ہزار دروازے ہوں گے اور ہر دروازے پر سونے کا ایک محل ہوگا وہ سرخ یاقوت سے مزین ہوگا، پھر جب روزہ دار رمضان کا پہلا روزہ رکھتا ہے تو اس کے گناہ معاف کر دیئے جاتے ہیں اور اس روزہ دار کے لئے صبح کی نماز سے لیکر غروب آفتاب تک ستر ہزار فرشتے اللہ سے مغفرت کی دعا کرتے رہتے ہیں (الترغیب اوالترہیب)۔
مختصر یہ کہ رحمت کا نزول جاری ہے اور ہم اس کے محتاج ہیں،حضرت سلمانؓ سے منقول ہے کہ آپﷺ نے فرمایا رمضان میں چار چیزوں کی کثرت کرو، دو باتیں ایسی ہیں کہ تم اس کے ذریعے اپنے رب کو راضی کروگے اور دو چیزیں ایسی ہیں کہ تم ان سے بے نیاز نہیں ہوسکتے،پہلی دو باتیں ایک لا الہ الااللہ کی گواہی دینا اور استغعفار اور دو چیزیں جن سے بے نیاز نہیں ہوسکتے، اللہ سے جنت میں داخلے کا سوال اور جہنم سے پناہ مانگنا، لہذا میرے مسلمان بھائیوں اور بہنوں، اللہ سے مانگو کہ اللہ ہمیں معاف کردے