بھارت اور ایران کے درمیان دوستانہ تعلقات کافی عرصہ سے استوار ہیں اسی لئے ایران اور بھارت کے مابین تعلقات کو مزید مضبوط کرنے کے لیے دہلی میں واقع ایران کلچر ہاوس کے ادارے نور مائکروفلمز ان تمام فارسی کی کتابوں کو حیات نو دینے میں مصروف ہے جو بھارتیہ تہذیب کی عکاسی کرتی ہیں.
نور مائکروفلمز سینٹر کے سربراہ ڈاکٹر مہدی خواجہ پیری کی قیادت میں اب تک 60 ہزار سے زائد قلمی نسخوں کو ڈیجیٹلائز کیا جا چکا ہے ان میں نیشنل آرکائیو سمیت ملک کی مختلف لائبریریوں کی نایاب کتابوں کو حیات نو دینے کا کام کر چکے ہیں.
بھارت میں اہل عرب کی آمد اسلام سے بہت پہلے سے جاری ہے اور بھارت کے لوگ بھی عرب اور وسطی ایشیا کے ملکوں میں صدیوں سے آنا جانا کر رہے ہیں. انہوں نے ایک دوسرے کی مذہبی کتابوں کو پڑھا ہے ان کے تراجم کئے ہیں اور اشاعت کی ہے محمود غزنوی کی فوج کے ساتھ یہاں آنے والے فلسفی و مورخ البیرونی نے کتاب الہند لکھ کر بھارت کی تہذیب و تمدن اور یہاں کے علوم و فنون سے دنیا کو آگاہ کرنے کا پہلا کام کیا تھا.
مغل بادشاہ جلال الدین اکبر نے مہابھارت کا ترجمہ کرایا تھا یہ قدیم داستان کورو اور پانڈو کے درمیان کی لڑائی ہے جو نسل درنسل عوامی زبانوں پر رائج ہے اس کے ساتھ ہی بھگوت گیتا کا ترجمہ بھی سنسکرت سے فارسی میں اکبر کے نورتنوں میں سے ایک فیضی نے ہی کیا تھا.
ہندو عقیدے میں مہابھارت کو ایک مقدس کتاب مانا جاتا ہے اور چونکہ اکبر مذہبی رواداری کا قائل تھا اس لیے انہوں نے ہندوؤں کی تہذیب کو جاننے اور انہیں اپنے قریب لانے کے لیے مذہبی کتابوں کا ترجمہ کرانے کا فیصلہ کیا.
اکبر کے حکم سے جن کتابوں کا سنسکرت سے فارسی میں ترجمہ کیا گیا ان کی تعداد مورخین نے 15 بتائی ہے جن میں مہابھارت، بھاگوت گیتا رامائن وغیرہ کا نام قابل ذکر ہے. ان کتابوں پر نہ صرف ماہر خطاط سے خطاطی کرائی گئی بلکہ ماہر فن مصوروں سے خوبصورت و جاذب نظر تصاویر بھی بنوائی گئیں۔