نئی دہلی: تریپورہ، میگھالیہ اور ناگالینڈ کے رجحانات اس جانب اشارہ کر رہے ہیں کہ شمال مشرقی ریاستوں میں بی جے پی کی مقبولیت ابھی بھی برقرار ہے۔ ایسے اشارے مل رہے ہیں کہ تریپورہ میں بی جے پی دوبارہ اقتدار میں واپسی کررہی ہے۔ جب کہ ناگالینڈ میں بھی بی جے پی اتحاد کو واضح اکثریت ملتی نظر آرہی ہے۔ حالانکہ بی جے پی کو میگھالیہ میں توقع کے مطابق سیٹیں نہیں ملی ہے، تاہم وہ پہلے سے بہتر پوزیشن میں ہے۔ ایسی قیاس آرائیاں بھی کی جا رہی ہیں کہ بی جے پی، این پی پی کے ساتھ اتحاد کرسکتی ہے۔ حالانکہ این پی پی پہلے بی جے پی کے ساتھ تھی، لیکن انتخابات سے قبل دونوں علیحدہ ہوگئے۔ اب امید کی جا رہی ہے کہ این پی پی اور بی جے پی ایک بار پھر ساتھ میں آسکتے ہیں۔
وہیں اگر ہم تریپورہ کی بات کریں تو یہاں مانک ساہا بی جے پی حکومت کی قیادت کر رہی ہے۔ پارٹی نے انتخابات سے قبل بپلاب دیب کو ہٹا کر مانک ساہا کو وزیراعلیٰ بنایا تھا۔ ایسا لگ رہا ہے کہ بی جے پی کو اس فیصلے سے فائدہ ملا ہے، مانک ساہا کی شبیہ صاف ہے۔ دوسری طرف بائیں بازو نے یہاں کانگریس کے ساتھ اتحاد کیا ہے۔ بائیں بازو کی یہاں 25 برس سے مسلسل حکومت رہی ہے۔ اس کے باوجود کانگریس اور بائیں بازو کچھ خاص نہیں کرسکے جس کی توقع تھی۔
دوسری طرف یہاں زیادہ تر بحث ٹپرا مورچہ کے تعلق سے ہورہی ہے۔ اس کی قیادت پردیوت مانک دیببرما کے پاس ہے۔ دیبرما کا تعلق یہاں کے شاہی خاندان سے ہے۔ انتخابات سے قبل یہ ایسی افواہیں تھیں کہ ٹپرا اور بی جے پی کے درمیان اتحاد ہو سکتا ہے، لیکن ایسا نہیں ہوا۔ ٹپرا کا شروع سے مطالبہ رہا ہے کہ ان کے علاقے کو ایک آزاد ریاست کا درجہ دیا جائے۔ ان کی مقبولیت بنیادی طور پر وہاں کے اصل قبائلیوں میں ہے۔ تاہم نہ تو بی جے پی اور نہ ہی بائیں بازو کے اتحاد نے ان کے مطالبات سے اتفاق کیا۔ ٹپرا چاہتی تھی کہ وہ بائیں بازو اور کانگریس اتحاد کے ساتھ مل کر الیکشن لڑے، لیکن اس اتحاد نے بھی ان کے مطالبے کا مثبت جواب نہیں دیا، یہی وجہ رہا کہ ٹپرا تنہا انتخابی میدان میں اترنے پر مجبور ہوے۔ ٹپرا جذباتی مسئلہ اٹھانے کے باوجود پوری ریاست میں اپنا چھاپ چھوڑنے میں ناکام رہے۔ اس کے برعکس بنگالی برادری اس کے خلاف متحرک نظر اور وہ بی جے پی کو حمایت کرتے ہوئے نظر آئے۔