بہار کے شہر گیا کے رہنے والے اشوک کمار Ashok Kumar, a Resident of Gaya نے ثابت کردیا کہ زبان کسی کی وراثت نہیں، بلکہ جو اسے اپنائے وہ اسی کی ہوتی ہے۔ زبان دلوں کو جوڑنے کا ذریعہ ہے اور جب معاملہ ' اردو زبان 'کا ہوتو اس کی مٹھاس اور اس کے الفاظ کی چاشنی دلوں پر گہرا اثر چھوڑ جا تی ہے۔
گیا کے اشوک جو پیشہ سے مزدور ہیں وہ اپنے بیٹے کی شادی کا کارڈ مسلم دوستوں کو اردو میں لکھ کر دے رہے ہیں، اشوک تیس سال قبل ایک دکان میں کر کام کرتے ہوئے اپنے مسلم ساتھی سے اردو پڑھنا لکھنا سیکھا تھا۔
دراصل اب شادی پر بلانے کے لیے انگریزی میں کارڈ دینا ایک روایت بن چکی ہے اور شادی کی تقریبات کا لازمی حصہ بھی ہے، کچھ عرصے پہلے تک شادی کے دعوت نامہ کا مضمون زیادہ تر اردو زبان میں ہوتا تھا یا پھر دعوت نامہ پر نام اور پتہ اردو میں لکھے جاتے تھے لیکن آج کل جو بھی دعوت نامہ موصول ہوتے ہیں ان میں انگریزی زبان ہی استعمال ہوتی ہے اور یہ معاملہ اردو برادری کے یہاں تیزی سے گھر کر گیا ہے۔
محب اردو اشوک کمار کو درد اور ناانصافی کا بخوبی احساس ہے یہی وجہ ہے کہ اشوک کمار نے بیٹے کی شادی کے کارڈ میں اردو برادری کو اس کا احساس کرانے کی کوشش کی ہے، اشوک کمار ایک شاپنگ مال ' بمبے بازار ' میں سیلزمین کا کام کرتے ہیں، پینتیس برس قبل انہوں نے 80 کی دہائی میں دکان میں کام کرتے ہوئے اپنے ایک مسلم دوست سے اردو پڑھنا اور لکھنا سیکھا تھا تاہم موجودہ وقت میں اردو کی زبوں حالی پر ان کے دل میں مایوسی ہے وہ اردو کے مستقبل اور اس کے فروغ کے تئیں فکر مند ہیں۔
اردو کی زبوں حالی کی شکایت انہیں سب سے زیادہ اردو برادری سے ہے انہوں نے اردو فروغ کی مہم کی شروعات اپنے چھوٹے بیٹے کی شادی کے کارڈ سے کی ہے، وہ مسلم دوستوں کو اردو عبارت میں ان کا نام اور پتہ لکھ کر دے رہے ہیں حالانکہ کارڈ کا مضمون ہندی میں ہے۔