اردو

urdu

By

Published : Sep 7, 2021, 10:33 AM IST

ETV Bharat / bharat

میانمار کے مسلم مخالف بھکشو جیل سے رہا

روہنگیا مسلمانوں کی حالت زار نے وراتھو کو عوام کی نظر میں لایا اور ان کی نفرت انگیز تقریروں کی طرف عالمی توجہ مبزول ہوئی۔ فیس بک نے 2018 میں ان کا اکاؤنٹ بند کر دیا۔ تاہم وہ دوسرے سوشل نیٹ ورکس پر موجود رہے اور ملک بھر میں اقلیت مخالف تقریریں کیں۔

میانمار کے مسلم مخالف بھکشو جیل سے رہا
میانمار کے مسلم مخالف بھکشو جیل سے رہا

میانمار میں قوم پرست بدھمت بھکشو جو مسلم مخالف بیان بازی کے لیے بدنام ہیں، پیر کے روز جیل سے رہا کئے گئے۔ ان پر الزام تھا کہ انہوں نے ملک کی سابقہ ​​سویلین حکومت کے خلاف عدم اطمینان پیدا کرنے کی کوشش کی تھی۔

بھکشو ویراتھو 2012 میں مغربی ریاست راکھین میں بدھ مت اور نسلی اقلیت روہنگیا مسلمانوں کے درمیان خوفناک فسادات کے بعد سرخیوں میں آگئے تھے۔ اس نے ایک قوم پرست تنظیم کی بنیاد رکھی جس پر مسلمانوں کے خلاف تشدد بھڑکانے کا الزام ہے۔

ویراتھو اور اس کے حامیوں کی قوم پرستی مہم شروع کرنے کے بعد دیگر نسلی گروہوں اور دیگر علاقوں کے مسلمانوں کو بھی اہانت اور تشدد کا سامنا کرنا پڑا۔ ٹائم میگزین نے 2013 میں ایک کور سٹوری میں ویراتھو کو بدھسٹ ٹیرر کا چہرہ کہا تھا۔

ویراتھو اور اس کے حامی بین المذاہب شادیوں کو مشکل بنانے والے قوانین کی حمایت میں بھی کامیاب رہے۔

ایک اور سرگرم بھکشو اور ویراتھو کے قریبی - پیر ماؤنٹ کھا - نے پیر کو تصدیق کی کہ ان کے خلاف کیس خارج کر دیا گیا ہے۔

انہوں نے کہا 'مجھے 100 فیصد یقین ہے کہ ویراتھو کو رہا کر دیا گیا ہے۔' انہوں نے کہا کہ ہم ان کی رہائی کا خیر مقدم کرتے ہیں۔

میانمار میڈیا نے کہا کہ انہیں میانمار کی فوج کے ترجمان میجر جنرل زاو من تون کی طرف سے ویراتھو کی رہائی کی تصدیق موصول ہوئی ہے۔

کیس خارج کرنے کی کوئی وجہ نہیں بتائی گئی۔

ویراتھو بدھ اکثریت والے میانمار میں روہنگیا مسلمانوں کے خلاف بڑے پیمانے پر تعصب پیدا کرنے میں شامل رہے ہیں۔ ان کی اشتعال انگریز بیان بازی کی وجہ سے روہنگیا کے خلاف ظلم و ستم میں اضافہ ہوا اور لاکھوں لوگ ہجرت کرنے پر مجبور ہو گئے۔

2017 میں پولیس چوکیوں پر مبینہ روہنگیا عسکریت پسندوں کے حملوں کے بعد فوج نے ایک وحشیانہ انسداد دہشت گردی مہم چھیڑ دیا جس کی وجہ سے 700000 سے زائد روہنگیا مسلمان ملک سے ہجرت کرنے پر مجبور ہو گئے اور کئی ہلاک ہو گئے۔

روہنگیا مسلمانوں کی حالت زار نے وراتھو کو عوامی نظر میں لایا اور ان کی نفرت انگیز تقریروں پر عالمی توجہ مبزول ہوئی۔ فیس بک نے 2018 میں ان کا اکاؤنٹ بند کر دیا۔ تاہم وہ دوسرے سوشل نیٹ ورکس پر موجود رہے اور ملک بھر میں اقلیت مخالف تقریریں کیں۔ نیشنل مونکس کونسل نے ان پر ایک سال تک عوامی تقریر کرنے پر پابندی عائد کر دی تھی لیکن فیصلے پر سختی سے عمل درآمد نہیں کیا گیا۔

ویراتھو کے فوج کے ساتھ قریبی روابط مانے جاتے ہیں۔ لیکن جب وہ جیل میں تھے تو سوشل میڈیا پر جاری ہونے والی ایک ویڈیو میں انہوں نے فوجی ڈکٹیٹرشپ کی جانب سے ان کے ساتھ رواں سلوک پر برہمی کا اظہار کیا تھا۔

ABOUT THE AUTHOR

...view details