سپریم کورٹ کے حکم نامہ کے باوجود ریاستی حکام کی جانب سے سی اے اے اور این آر سی مخالف مظاہرین کو ایک مرتبہ پھر نجی املاک کے نقصان کی تلافی کے لئے نوٹس جاری ہو رہے ہیں۔ ضلع رامپور میں دو ہفتوں کے اندر اب تک تقریباً 10 افراد کو ایسے نوٹس موصول ہوچکے ہیں۔ ان نوٹس کے ذریعہ 4 اپریل کو جواب داخل کرنے کو کہا گیا ہے جس سے متاثرین ڈر و خوف کے ماحول میں زندگی بسر کر رہے ہیں یوگی حکومت کے دوبارہ اقتدار میں آتے ہی ریاست میں ایک مرتبہ پھر سی اے اے اور این آر سی مخالف مظاہرین اور ملزمان کی آزمائشوں میں اضافہ ہوگیا ہے۔ Anti-CAA Protester Once Again Issued Notices For Damages To Private Property
گذشتہ برس جب یوگی حکومت کی جانب سے سی اے اے اور این آر سی مخالف مظاہرین کو سرکاری املاک کو نقصان پہنچانے اور اس کی وصولی کے نوٹس جاری ہو رہے تھے تو متاثرین کی جانب سے سپریم کورٹ میں اپیل داخل کی گئی تھی جس کے بعد سپریم کورٹ نے اترپردیش حکومت سے فوری نوٹس واپس لینے کا حکم نامہ جاری کیا تھا۔ لیکن یوگی حکومت کے دوبارہ اقتدار آتے ہی ملزمین کو ایک مرتبہ پھر یہ نوٹس جاری ہو رہے ہیں۔ متاثرین کا کہنا ہے کہ دو ہفتوں کے اندر تقریباً 10 ملزمان کو یہ نوٹس پہنچ چکے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس کی وجہ سے ان کو کافی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ وہیں ان ملزمین کی پیروی کرنے والے وکیل محمد ضمیر رضوی نے کہا کہ جب سپریم کورٹ نے ان نوٹس کو نہ جاری کرنے کی ہدایات جاری کی ہیں تو پھر ایسے نوٹس کیوں جاری کئے جا رہے ہیں۔
یاد رہے کہ ان تمام ملزمین کے خلاف 22 دسمبر 2019 کو تھانہ کوتوالی اور تھانہ گنج میں دو الگ الگ مقدمات 655/19 اور 832/19 مختلف دفعات کے تحت درج ہیں۔ اسی کے تحت پولیس کی جانب سے ملزمین کے خلاف کارروائیاں انجام دی جا رہی ہیں۔ ساتھ ہی پولیس کا یہ بھی کہنا ہے کہ مزید ملزمین کی گرفتاریوں کی کوششیں جاری رہیں گی۔ واضح رہے کہ21 دسبر 2019 کو رامپور کی عید گاہ میں ملی قیادت کی زیر نگرانی متحدہ طور پر شہریت ترمیمی قانون اور این آر سی کے خلاف احتجاجی جلسہ منعقد ہونا تھا۔ لیکن عین وقت پر انتظامیہ نے اس کی اجازت دینے سے انکار کر دیا تھا۔
عوام جب شہر کے مختلف علاقوں سے جمع ہوکر جلسہ گاہ کی جانب بڑھی تو پولیس کی بھاری فورس نے عید گاہ سے نصف کلو میٹر دور ہاتھی خانہ کے چوراہے پر روک دیا تھا لیکن جب عوام کا جم غفیر عید کی جانب بڑھنے کے لئے بضد ہوا تو پولیس نے آنسو گیس کے گولے داغ کر انہیں روکنے کی کوشش کی۔ دونوں جانب سے تھوڑی ہی دیر میں سنگ باری بھی شروع ہو گئی تھی۔ اسی درمیان مظاہرین میں سے ایک نوجوان فیض کو گولی لگ گئی۔ جس سے اس کی موقع پر ہی موت واقع ہو گئی تھی۔ وہیں متعدد افراد زخمی بھی ہو گئے تھے۔ اس کے بعد پولیس نے 116 نامعلوم افراد کو نامزد کیا جبکہ ہزاروں نامعلوم افراد کے خلاف مختلف سنگین دفعات کے تحت الگ الگ تھانوں میں دو مقدمات درج کرکے پہلے ہی دن اپنی کارروائی کو انجام دیتے ہوئے 34 افراد کو قصوروار قرار دیکر جیل بھیج دیا تھا۔ طویل جدوجہد کے بعد کسی طرح 26 افراد کی ضمانتیں حاصل کرکے ان کو جیل سے رہا کرایا گیا، ساتھ ہی ضلع انتظامیہ اور پولیس کپتان سے اس بات کی یقین دہانی بھی کرائی گئی تھی کہ اس معاملے میں اب مزید گرفتاریاں نہیں ہونگی۔ لیکن پولیس کی جانب سے اس کے بعد بھی گرفتاریوں کا سلسلہ بند نہیں ہوا یہاں تک کہ ایک سال کے دوران پولیس نے اب تک تقریباً 120 افراد کو گرفتار کرکے ان پر سنگین دفعات لگادئے ہیں تاہم ملزمین کی جانب سے ان کے دفاعی وکلاء نے انہیں ضمانت پر رہا بھی کرا رہے ہیں۔