ممبئی:بحیثیت ویلن فلم انڈسٹری میں امریش پوری نے جومقام حاصل کیا وہ ان کی بہترین اداکاری اور سخت محنت کا نتیجہ تھا۔ پردۂ سیمیں کے وہ واحد ویلن تھے جن کے انتقال پر روزناموں نے صفحۂ اول پر خبر چھاپی، اداریئے لکھے، اسٹیج سے اپنی اداکاری کا سفر شروع کرنے والے امریش پوری نے اپنی ایسی امیج بنائی کہ فلم میں ان کی موجودگی ناظرین کو سنیماہال تک کھینچ لے جاتی تھی۔ بلندآواز، پرکشش شخصیت اور مکالموں کی بہترین انداز میں ادائیگی، چہرے کی سختی اور آنکھوں کے خوف کے سبب وہ ایک عرصہ تک بالی ووڈ میں بطور ویلن بے تاج بادشاہ بنے رہے۔
’’مُگیمبو خوش ہوا’’ یہ الفاظ آج بھی لوگوں کے ذہن میں گونج رہے ہیں۔ فلم انڈسٹری میں امریش پوری نے مگمیبو کے مشکل ترین کردار کو جس خوبی سے نبھایا، وہ ان کی بہترین اداکاری، بلند قامت، بھاری بھرکم شخصیت، پاٹ دار آواز کی دین تھا۔ بغیر امریش پوری مسٹر انڈیا کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ ان کے اندر فن کارانہ صلاحیتیں کوٹ کوٹ کربھری ہوئی تھیں۔ جو رول بھی انہیں ملا، اپنی لاجواب اور بہترین اداکاری کے ذریعہ انہوں نے اسے امر بنادیا۔
امریش پوری نے اپنے کیرئیرکا آغاز اسٹیج سے کیا۔ کئی برسوں تک وہ اس سے جڑے رہے۔ اس کے بعد انہیں فلموں میں کام کرنے کا موقع ملا۔ آہستہ آہستہ انہوں نے اپنی فنکارانہ صلاحیتوں سے لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کیا۔ ابتدا میں مختصرسا رول ادا کرنے والے اس شخص کے بارے میں کسی نے سوچا بھی نہیں ہوگا کہ وہ ایک دن شہرت کی بلندیوں کو چھولے گا اور ایک منجھے ہوئے اداکار کی شکل میں اپنی شناخت کرائے گا۔
22جون 1922 کو انبالہ میں پیدا ہوئے امریش پوری کیریکٹر آرٹسٹ چمن پوری اور ویلن مدن پوری کے سب سے چھوٹے بھائی تھے۔ کالج کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد انہوں نے فلموں کا رخ کیا۔ لیکن بطور ہیرو مسترد کر دیئے جانے کے بعد وہ فطری طور پر بہت مایوس ہوئے۔ بادل نخواستہ انہوں نے اپنی معاشی ضرورتوں کی تکمیل کے لیے وزارت محنت میں ملازمت اختیار کرلی۔لیکن ان کا دل اداکاری کی طرف ہی اٹکا رہا۔
آخر کار انہوں نے ایک دن ملازمت چھوڑدی اور اسٹیج اداکاری کی طرف متوجہ ہوگئے۔ اسی دوران ان کی ملاقات ستیہ دیو دوبے سے ہوئی۔ اس ملاقات نے امریش پوری کی دنیا ہی بدل دی۔ ستیہ دیو دوبے بہترین ہدایت کار تھے۔ انہوں نے امریش پوری کی اداکاری کو دیکھ کر ان کے اندرچھپی ہوئی صلاحیتوں کو بھانپ لیا۔ ڈرامہ ’’اندھا یگ‘‘ میں امریش پوری کی اداکاری سے متاثر ہوکر انہوں نے تقریباً 50 ڈراموں میں انہیں کام دیا اور ان کے اندر چھپی ہوئی فن کارانہ صلاحیتوں کواجاگر کیا۔ بقول ستیہ دیو دوبے ’’امریش جی کے بارے میں کیا کہوں۔ بس اتنا کہہ سکتا ہوں کہ وہ ایک عمدہ ترین اداکار تھے‘‘۔
اپنے زمانے کے مشہور ویلن کے این سنگھ امریش پوری کے آئیڈیل تھے۔انہی سے متاثر ہوکر انہوں نے اپنے آپ کو ویلن کے روپ میں ڈھالا اور وہ اس میں اس قدر کامیاب ہوئے کہ فلم انڈسٹری میں ویلن کو اہم مقام اور رتبہ دیا جانے لگا۔ بقول گلشن گروور ’’فلم انڈسٹری میں کھلنائک کواہم مقام دلانے میں امریش پوری کا بہت بڑا ہاتھ تھا۔پہلے کھلنائک سیٹ پر ہی پنکھے کی ہوا کھاتے تھے۔لیکن امریش پوری نے کھلنائکوں کے لیے وینٹی وین کی شروعات کی۔ آج انہیں کی بدولت فلمی دنیا ہم وینٹی وین میں آرام کرپارہے ہیں‘‘۔
ڈراموں میں ان کی بہترین اداکاری کو دیکھ کر پہلی مرتبہ سکھ دیو نے فلم ’ریشما اور شیرا‘ میں ایک رول کے لیے سائن کیا۔لیکن کنڑ فلم ’’کاڑو‘‘ سے امریش پوری کو فلمی دنیا میں پہچان ملی اور یہ فلم امریش پوری کے لیے سنگ میل ثابت ہوئی۔ مشہور آرٹ فلم ساز شیام بینیگل نے جب یہ فلم دیکھی تو وہ ان کی اداکاری کی تعریف کئے بغیر نہیں رہ سکے اور انہیں اپنی فلم’’ منتھن‘‘ اور’’ نشانت‘‘ میں کاسٹ کیا۔پھر تو ان کی کامیابی کا سفر شروع ہوگیا۔
شیام بینیگل ان کی طلسماتی اداکاری سے بے حدمتاثر ہوئے اور انہوں نے اپنی ہر فلم میں امریش پوری کے لیے ایک رول مخصوص کیا۔ وجیتا ‘کلیگ‘ سورج کا ساتواں گھوڑا میں امریش پوری آرٹ فلموں کے ایک مضبوط اور کامیاب اداکار کے طورپر ابھرے۔ اب امریش پوری ہدایت کار اورناظرین دونوں کی توجہ کا مرکز بن گئے۔ جس فلم میں بھی انہیں اداکاری کا موقع ملا‘ اس میں انہوں نے اپنی ان مٹ چھاپ چھوڑی۔ ان کی مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ ناظرین ہیرو کے مقابلے انہیں زیادہ اہمیت دینے لگے۔ انہیں تقریباً ہر فلم میں امریش پوری کودیکھنے کی عادت سی پڑگئی تھی۔
فیروز خان کی فلم ’قربانی‘ سے ان کا فلمی سفر آرٹ سے کمرشیل فلموں کی جانب بڑھا اور ان کی شہرت اس وقت بلندیوں کو چھونے لگی جب انہوں نے فلم ’’مسٹر انڈیا‘‘میں مگیمبوکا مشکل ترین کردار اس قدر جادوئی انداز میں نبھایا کہ لوگ انگشت بدنداں رہ گئے اور ہرخاص و عام کی زبان پر اس فلم کا ڈائیلاگ مگیمبو خوش ہوا عام ہوگیا۔ اس فلم کے ہدایت کار شیکھر کپور کا کہنا ہے کہ لوگ مجھے مسٹر انڈیا کی بدولت جانتے ہیں اور امریش پور ی کو مسٹرانڈیا کے مگیمبو سے۔
امریش پوری کے بغیر ’’مسٹر انڈیا‘‘ کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ وہ اس رول میں اتنے رچ بس گئے کہ آج بھی لوگوں کو ’’مسٹر انڈیا‘‘ کا مگیمبو یاد آتا ہے۔ خود امریش پوری نے ’’مسٹر انڈیا‘‘ کے بارے میں کہا تھا کہ یہ فلم میرے لیے خاص اہمیت رکھتی ہے۔ اس فلم نے میرے لیے کمرشیل فلموں کے دروازے کھول دیئے۔حالاں کہ میں نے اس سے قبل بھی ایک سے بڑھ کر ایک کردار نبھائے لیکن مگیمبو حقیقی معنوں میں چھایا رہا۔ مگیمبو کے کردار پر میں نے کافی محنت کی تھی۔ جب بچے بوڑھوں کی زبان پر’’مگیمبو خوش ہوا‘‘ چڑھ گیا تو مجھے بے پناہ مسرت ہوئی۔