حیدرآباد کے ادبی فورم بازگشت کی جانب سے اقبال کی نظم مسجد قرطبہ کی پیش کش اور گفتگو نے دوران پروفیسربیگ احساس نے کہا ہے کہ 'نظم مسجد قرطبہ بارہ سو برس کی اسلامی تاریخ و تہذیب، فنون لطیفہ اور سیاسی منظر نامے کا نچوڑ ہے'۔
اردو زبان کے ممتاز شاعر علامہ محمد اقبال کے یوم پیدائش کے موقع پر معروف ادبی فورم 'بازگشت' کی جانب سے علامہ اقبال کی نظم مسجدِ قرطبہ کی پیش کش اور ان کی شاعری سے متعلق ایک آن لائن پروگرام منعقد کیا گیا۔
اس پروگرام میں ممتاز افسانہ نگار اور بازگشت آن لائن ادبی فورم کے صدر پروفیسربیگ احساس اپنے صدارتی خطاب میں کہا کہ 'علامہ اقبال کی تخلیق مسجد قرطبہ مواد اور ہیئت دونوں اعتبار سے اردو کی لازوال نظموں میں سے ہے'۔
پروفیسربیگ احساس نے بتایا ہے کہ 'آٹھ بندوں پر مشتمل یہ نظم قصیدے کی ہیئت میں لکھی گئی ہے اور اس کے ہر بند میں آٹھ اشعار ہیں'۔
ان کے مطابق 'اس نظم میں اقبال نے 1200 برس کی اسلامی تاریخ و تہذیب، فنونِ لطیفہ، سیاسی منظر نامہ اور مذہبی عقائد کا نچوڑ پیش کردیا ہے'۔
انھوں نے بتایا کہ اقبال کے کلام میں مسجد قرطبہ، ساقی نامہ اور ذوق و شوق کو نمایاں مقام حاصل ہے۔
پروفیسربیگ احساس نے کہا ہے کہ 'وہ اگر کچھ اور نہیں کہتے تب بھی یہ تین نظمیں انھیں تاریخ ادب میں زندہ رکھنے کے لیے کافی تھیں'۔
پروفیسربیگ احساس، ضیاء الدین نئیر ، محبوب خاں اصغر اور دیگر ادبی فورم بازگشت میں شریک انھوں نے مزید کہا کہ مسجد قرطبہ میں اقبال نے برگساں کا فلسفہ پیش کیا ہے کہ وقت ایک بہتا ہوا دریا ہے۔ وقت کے بہاو میں قومیں ابھرتی ڈوبتی رہتی ہیں لیکن وقت کا سیل رواں کبھی نہیں رکتا، یہ ہمیشہ آگے بڑھتا رہتا ہے'۔
پروفیسربیگ احساس کے مطابق 'اقبال انقلاب کے مغنی ہیں اور ان کی شاعری رجائیت سے عبارت ہے۔ انھوں نے اردو شاعری کی روایت سے الگ عشق کا ایک نیا تصور پیش کیا جس پر عمل پیرا ہوکر انسان ابدیت حاصل کر سکتا ہے'۔
ممتاز ادیب، دانشور اور صدر اقبال اکیڈمی، حیدرآباد ضیاء الدین نئیر نے اس پروگرام میں بہ حیثیت مہمان خصوصی شرکت کی۔
ضیاء الدین نئیر نے کہا کہ 'مسجدِ قرطبہ علامہ اقبال کے سیاحتِ اندلس کی یادگار اور ان کی شاعری کا امتیازی نشان ہے۔ اندلس جو صدیوں تک اسلامی تہذیب و تمدن کا گہوارہ رہا ہے، اس سرزمین سے شاعر مشرق کو عشق ہے'۔
انھوں نے کہا ہے کہ 'مسجدِ قرطبہ میں اقبال کی فکر کے تمام پہلو اور فن کی تمام خصوصیات مجتمع ہوگئی ہیں۔اس میں انھوں نے اجتماعیت ورجائیت کا درس دینے کے ساتھ زماں و مکاں کا تصور بھی پیش کیا ہے'۔
ضیاء الدین نئیر کے مطابق 'اس نظم کی علامتی فضا، ایجاز،رعنائی، جاہ و جلال اور حسن و جمال سب کچھ بے مثال ہے'۔
انھوں نے کہا کہ 'اقبال کی فکر میں زندگی پیہم رواں، ہردم جواں کی صورت میں نمودار ہوئی ہے۔اقبال کی فکر سے ترغیب حاصل کرکے ہم آج بھی اپنی زندگی بہتر بنا سکتے ہیں'۔
نوجوان شاعر، ادیب اور معتمد، غالب اکیڈمی، حیدرآباد محبوب خاں اصغر نے بہترین انداز اور لب و لہجے میں مسجدِقرطبہ پیش کی۔ انھوں نے اقبال کی شاعری کے فکری پہلوؤں پر مختصر روشنی ڈالی۔
پروفیسر نسیم الدین فریس، ڈین اسکول برائے السنہ، لسانیات و ہندوستانیات اور صدر شعبہ اردو، مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی نے کہا کہ 'اقبال فہمی اور اقبال شناسی میں حیدرآباد خصوصاً جامعہ عثمانیہ کے اساتذہ نے قابلِ قدر خدمات انجام دی ہیں'۔
انھوں نے بتایا ہے کہ 'خلیفہ عبدالحکیم کی ”فکر اقبال“، یوسف حسین خاں کی ”روح ِاقبال“ اور عزیز احمد کی”اقبال نئی تشکیل“ حیدرآباد میں لکھی گئی وہ کتابیں ہیں جن کے مطالعے کے بغیر اقبال کی فکر کو پوری طرح نہیں سمجھا جا سکتا'۔
عذرا نقوی(دہلی)، ڈاکٹر جاوید رحمانی(آسام یونیورسٹی،سلچر)، ملکیت سنگھ مچھانا (بٹھنڈہ، پنجاب)، انعام الرحمٰن غیور(حیدرآباد) اور ڈاکٹر عظمیٰ تسنیم(حیدرآباد) نے گفتگو میں حصہ لیا۔
ابتدا میں ڈاکٹر گل رعنا نے علامہ اقبال کی حیات و خدمات سے مختصر طور پر واقف کرایا اور بتایا کہ وہ 9 نومبر 1877کو سیال کوٹ، پنجاب میں پیدا ہوئے۔
واضح رہے کہ علامہ اقبال نے سیالکوٹ، لاہور،لندن اور ہائیڈل برگ، جرمنی میں تعلیم حاصل کی۔ بانگ درا، بال جبریل، ضربِ کلیم اور ارمغانِ حجاز ان کے شعری کارنامے ہیں۔
علامہ اقبال کا انتقال 21 اپریل 1938کو لاہور میں ہوا۔ ڈاکٹر گل رعنانے ضیاء الدین نئیر کا تعارف بھی پیش کیا اور آخر میں اظہارِ تشکر کیا۔
انتظامیہ کمیٹی کی رکن ڈاکٹر حمیرہ سعید نے جلسے کی بہترین نظامت کی اور محبوب خاں اصغر کا تعارف پیش کیا۔
اس اجلاس میں ملک و بیرونِ ملک کے شائقین ادب، اساتذہ اور طلبا و طالبات نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔
ان میں پروفیسر حبیب نثار، استاد شعبہ اردو،حیدرآباد سنٹرل یونیورسٹی، ڈاکٹر محمد قمر سلیم(ممبئی)، ڈاکٹر مشرف علی(بنارس)، ڈاکٹر ہادی سرمدی (داؤد نگر، بہار)غوث ارسلان، فرح تزئین (سعودی عرب)، عبدالحق (امریکہ) ڈاکٹرمحمد امتیاز عالم، ڈاکٹر ارم اصغر(میلان، اٹلی) ڈاکٹر تلمیذ فاطمہ نقوی (بھوپال)، نوشاد انجم(بنگلورو)، عظمیٰ تسنیم(پونے) حنیف سید(آگرہ) افشاں جبیں فرشوری، صائمہ بیگ، انعام الرحمٰن غیور، ڈاکٹر زاہدالحق، ڈاکٹر محمد اشفاق چاند، ڈاکٹر اسلم فاروقی، منور علی مختصر، ڈاکٹر صابر علی، ڈاکٹر عائشہ بیگم، عبید ریحان، ثوبیہ نوشین، ڈاکٹر حنا کوثر، عالیہ فاطمہ، فریدالحق، اقبال احمد (حیدرآباد)خاص طور سے قابل ذکر ہیں۔