حکیم الاُمت، شاعر مشرق ڈاکٹر علامہ اقبال نے شاہین، خودی، مرد مومن، عقل و عشق اور وطنیت و قومیت کا تصور اور فلسفہ انتہائی مدلل و منفرد انداز میں پیش کر کے اپنے خیالات کو زندہ و جاوید بنا دیا۔ اقبال کی سوچ آج بھی ہمارے لیے مشعل راہ ہے۔ یوم اقبال کے موقع پر ملک بھر کے تعلیمی اداروں میں تقریری و تحریری مقابلے منعقد کیے جاتے ہیں جن میں اقبال کے کلام اور ان کی شخصیت کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی جاتی ہے۔
ڈاکٹر سر علامہ محمد اقبال بیسویں صدی کے ایک مشہور و معروف شاعر، مصنف، قانون داں، سیاستداں اور تحریک پاکستان کے اہم ترین قائدین میں سے ایک تھے۔ ڈاکٹر اقبال اردو اور فارسی میں شاعری کرتے تھے اور یہی ان کی بنیادی وجہ شہرت ہے۔ شاعری میں ان کا بنیادی رجحان تصوف اور احیائے امت اسلام کی طرف تھا۔ انہوں نے 'دی ری کنسٹرکشن آف ریلیجیس تھاٹ اِن اسلام' کے نام سے انگریزی میں ایک نثری کتاب بھی تحریر کی۔ علامہ ڈاکٹر اقبال کو دور جدید کا صوفی سمجھا جاتا ہے۔ آج شاعر مشرق کی 84ویں برسی ہے۔ اس مناسبت سے ای ٹی وی بھارت کی یہ خصوصی رپورٹ پیش خدمت ہے۔ The Reconstruction of Religions Thought in Islam
نہیں تیرا نشیمن قصر سلطانی کے گنبد پر
تو شاہیں ہے، بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں میں
نوجوانوں کے اندر جوش اور ولولہ پیدا کرنے والے اس شعر کے خالق، شاعر مشرق علامہ اقبالؒ نو نومبر سنہ 1877 کو سیالکوٹ میں پیدا ہوئے تھے جبکہ وفات 21 اپریل 1938 کو لاہور میں ہوئی تھی۔ علامہ اقبال نے اس طرح کے بہت سے اشعار کہے ہیں جس سے وہ نوجوانوں کے اندر خودی، اسلامی فکر اور وسعت نظر پیدا کرنا چاہتے تھے۔ مسلمانوں میں انسانی روح بیدار کرنے والے مفکرِ اسلام، شاعرِ مشرق علامہ اقبال کا یوم پیدائش ملک بھر سمیت دنیا بھر میں عقیدت و احترام کے ساتھ منایا جاتا ہے۔ علامہ اقبال کا شہرہ آفاق کلام دُنیا کے ہر حصے میں پڑھا اور سمجھا جاتا ہے۔ انہوں نے ہمیشہ مسلمانوں کو آپس میں اتحاد اور اتفاق کی تلقین کی اور دعوت عمل دی۔ مفکر پاکستان نے شاہین کا تصور اور خودی کا فلسفہ پیش کیا۔ فرقہ واریت، نظریاتی انتہا پسندی اور نئے اجتماعی گروہوں کی تشکیل جیسے معاملات پر اقبال کی سوچ آج بھی ہمارے لیے مشعل راہ ہے۔
علامہ اقبال کی وفات کے موقع پر ملک بھر کے تعلیمی اداروں میں تقریری اور تحریری مقابلے منعقد کیے جاتے ہیں جن میں اقبال کے کلام اور ان کی شخصیت کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی جاتی ہے۔ اردو اور فارسی کے عظیم شاعر علامہ اقبال نے 'سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا' اور 'لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری' جیسے شہرہ آفاق ترانے لکھے ہیں جب کہ 'شکوہ اور جواب شکوہ' جیسی ان کی نظموں نے خوب پذیرائی حاصل کی ہے۔ علامہ اقبال کی اردو اور فارسی زبانوں میں تصانیف کے مجموعوں میں بال جبریل، بانگ درا، اسرار خودی، ضرب کلیم، جاوید نامہ، رموز بے خودی، پیام مشرق، زبور عجم، پس چہ باید کرد اے اقوامِ شرق اور ارمغان حجاز شامل ہیں۔
علامہ محمد اقبال کی ابتدائی تعلیم:علامہ محمد اقبال نے ابتدائی تعلیم اپنے آبائی شہر میں حاصل کی اور پھر لاہور کا رخ کیا۔ انہوں نے 1899 میں گورنمنٹ کالج لاہور سے فلسفے میں ایم اے کا امتحان پاس کیا اور پھر تدریس کے شعبے سے وابستہ ہوئے۔ علامہ اقبال 1905 میں برطانیہ چلے گئے جہاں پہلے انہوں نے کیمبرج یونیورسٹی ٹرینٹی کالج میں داخلہ لیا اور پھر معروف تعلیمی ادارے لنکنزاِن میں وکالت کی تعلیم لینا شروع کردی بعد ازاں بعد وہ جرمنی چلے گئے جہاں میونخ یونیورسٹی سے انھوں نے فلسفہ میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ اس دوران شاعری بھی جاری رکھی۔ وطن واپسی کے بعد آپ وکالت کے پیشے سے کل وقتی طور پر وابستہ ہوئے، علامہ اقبال کی شاعری کا آغاز زمانہ طالب علمی ہی سے ہوچکا تھا۔ ابتدا میں انہوں نے داغ دہلوی سے اصلاح لی۔ علامہ اقبال نے تمام عمر مسلمانوں میں بیداری و احساسِ ذمہ داری پیدا کرنے کی کوششیں جاری رکھیں مگر وہ پاکستان کی صورت میں اپنے خواب کو حقیقت کے روپ میں ڈھلتا نہ دیکھ سکے اور 21 اپریل 1938 کو خالقِ حقیقی سے جا ملے۔ انہیں لاہور میں سپرد خاک کیا گیا۔
علامہ محمد اقبال کی شاعری:اردو اور فارسی میں شاعری علامہ اقبال کی بنیادی وجہ شہرت ہے۔ انہوں نے پاکستان کا تصور پیش کر کے اپنی شاعری سے برصغیر کے مسلمانوں میں جینے کی ایک نئی امید پیدا کی۔ مسلمانان ہند کے لیے الگ وطن کا خواب دیکھنے والے اقبال قیامِ پاکستان سے پہلے ہی چل بسے۔ ان کا انتقال 21 اپریل 1938 کو ہوا۔ ڈاکٹر سر علامہ محمد اقبال حکیم الامت کے لقب سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔ انہوں نے اپنے فکر و فلسفہ کے ذریعہ امت واحدہ کی نبوی تعلیم کو اجاگر کیا۔ امت مسلمہ کے زوال میں باہمی تقسیم اور انتشار ہی مرکزی کردار ہے۔ آج بھی اگر امت اپنا کھویا ہوا مقام بحال کرنا چاہتی ہے تو سب سے پہلے وہ ایک کتاب جس کا نام قرآن مجید ہے اس پر جمع ہوجائیں۔
ڈاکٹر سر علامہ محمد اقبال بطورِ سیاستداں:بحیثیت سیاستداں ان کا سب سے نمایاں کارنامہ نظریۂ پاکستان کی تشکیل ہے جو انہوں نے 1930ء میں الہ آباد میں مسلم لیگ کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے پیش کیا تھا۔ یہی نظریہ بعد میں پاکستان کے قیام کی بنیاد بنا۔ اسی وجہ سے علامہ اقبال کو پاکستان کا نظریاتی خالق سمجھا جاتا ہے۔ گو کہ انہوں نے پاکستان بننے کے بعد اس نئے ملک کے قیام کو اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھا لیکن انہیں پاکستان کے قومی شاعر کی حیثیت حاصل ہے۔