الہ آباد ہائی کورٹ نے اتر پردیش میں 'اسپیشل میرج ایکٹ' کے حوالے سے ایک بڑا فیصلہ دیا ہے۔ ہائی کورٹ کے حکم کے بعد اب مختلف مذاہب کے نوجوانوں کو راحت ملے گی جو اپنی مرضی سے شادی کرنا چاہتے ہیں اور اگر یوگی حکومت اس حکم سے اتفاق کرتی ہے تو ایک ماہ قبل مختلف مذاہب کے رشتے کے لیے نوٹس شائع کروانے کی ضرورت نہیں ہوگی۔
عدالت نے واضح کیا کہ اگر شادی شدہ جوڑے کی جانب سے نوٹس شائع کرنے کو نہیں کہا جائے گا تو یہ افسر ایسی کوئی معلومات شائع نہیں ہوگی اور نہ ہی اس پر کوئی عتراض داخل کیا جائے گا اور افسر شادی کروانے کے لیے مزید کارروائی کرے گا۔
جسٹس وویک چودھری کی یک رکنی بینچ نے اس معاملے پر تفصیلی سماعت کی۔ عدالت نے مشاہدہ کیا کہ 'اسپیشل میرج ایکٹ 1954' کی دفعہ 5 کے تحت نوٹس دینا ایک لازمی طریقہ کار ہے جو دفعہ 6 کے تحت کی جاتی ہے۔
عدالت نے کہا کہ اس قسم کی اشاعت آزادی اور رازداری کے حق پر تجاوزات کے مترادف ہے۔ نیز اس شادی کے معاملے میں ریاست اور دیگر افراد کو مداخلت کرنے کا بھی اختیار دیتی ہے۔
عدالت نے ان تبصروں کے ساتھ اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ جو بھی جوڑا 'اسپیشل میرج ایکٹ'کے تحت شادی کرنا چاہتے ہیں وہ میرج افسر کو تحریری درخواست دے سکتے ہیں۔
اس درخواست خط کے ذریعہ وہ اپنی رائے بتاسکتے ہیں کہ آیا وہ دفعہ 6 کے تحت نوٹس شائع کروانا چاہتے ہیں یا نہیں۔ اگر جوڑے نے نوٹس شائع کرنے کے لیے تحریری درخواست نہیں کی تو اشاعت نہیں کی جائے گی۔