ذرائع کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم کی سرکاری رہائش گاہ پر یہ میٹنگ سہ پہر تین بجے منعقد ہوگی۔
سابق وزیر اعلیٰ ڈاکٹر فاروق عبداللہ میٹنگ میں شرکت کیلئے آج صبح سرینگر سے روانہ ہوئے۔ تین سابق وزرائے اعلیٰ محبوبہ مفتی، عمر عبداللہ اور غلام نبی آزاد پہلے ہی دلی پہنچ چکے ہیں۔ کل 14 سیاسی رہنماؤں کو میٹنگ کیلئے مدعو کیا گیا ہے۔ ان رہنماؤں کا تعلق آٹھ سیاسی جماعتوں - این سی، پی ڈی پی، بی جے پی، کانگریس، جموں و کشمیر اپنی پارٹی، سی پی آئی (ایم)، پیپلز کانفرنس اور پینتھرس پارٹی کے ساتھ ہے۔ انہیں مرکزی سیکرٹری داخلہ اجے بھلا نے 19 جون کے روز ٹیلیفون پر شرکت کے لئے مدعو کیا تھا۔ بعد میں انہیں باضابطہ دعوت نامے بھی روانہ کئے گئے۔ سبھی رہنماؤں نے کسی شرط کے بغیر اجلاس میں شرکت کی حامی بھری ہے۔ ان سیاسی رہنماؤں کا تعلق کشمیر اور جموں خطوں کے ساتھ ہے۔
لداخ کے کسی رہنما کو اجلاس میں شرکت کیلئے مدعو نہیں کیا گیا جو اس بات کا اشارہ ہے کہ سابق ریاست کی تقسیم کے حتمی ہونے پر مرکزی حکومت کوئی بات کرنا نہیں چاہتی حالانکہ کشمیر کے سیاسی رہنما چاہتے ہیں کہ ریاست کو دوبارہ متحد کرنے کے معاملے پر بات کی جائے۔
جو دیگر رہنما اس اجلاس میں شرکت کریں گے ان میں سابق نائب وزرائے اعلیٰ مظفر حسین بیگ , ڈاکٹر نرمل سنگھ, کویندر گپتا اور تارا چند شامل ہیں۔ بی جے پی کے جموں و کشمیر کے صدر رویندر رینا، مارکسوادی کیمونسٹ پارٹی کے جنرل سیکرٹری یوسف تاریگامی، پینتھرس پارٹی کے لیڈر پروفیسر بھیم سنگھ، اپنی پارٹی کے سربراہ الطاف بخاری اور پیپلز کانفرنس کے چیئرمین سجاد لون بھی دلی پہنچ چکے ہیں۔
حالانکہ میٹنگ کا ایجنڈا واضح نہیں ہے لیکن توقع ہے کہ اس اجلاس میں اسمبلی انتخابات کے انعقاد کے فریم ورک کا بھی فیصلہ کیا جائے گا۔ جموں و کشمیر کی اسمبلی کی ہیئت تبدیل ہوگئی ہے اور حکام چاہتے ہیں کہ اسمبلی کی نئی حدبندی کی جانی چاہئے۔ اس سلسلے میں قائم کئے گئے حد بندی کمیشن کے کئی اجلاس منعقد کئے گئے ہیں۔
جموں و کشمیر بالخصوص کشمیر صوبے میں مضبوط پکڑ رکھنے والی سیاسی جماعتوں نے واضح کیا ہے کہ وزیراعظم کے ساتھ دفعہ 370 کی بحالی اور سیاسی قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ کیا جائے گا۔
یہ بھی پڑھیں: ہم وزیراعظم سے ستاروں کی فرمائش نہیں کریں گے: تاریگامی
مرکز کا اچانک اقدام بین الاقوامی برادری خاص طور پر ریاستہائے متحدہ امریکہ کی جانب سے ان بیانات کے پس منظر میں آئے ہیں، جن میں بھارتی حکومت سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ جموں وکشمیر میں جمہوری اور انتخابی عمل کو بحال کرے۔ خطہ سن 2018 کے بعد سے مرکز کی حکمرانی میں ہے۔
جموں و کشمیر کی تمام سیاسی جماعتوں کی 5 اگست 2019 کے بعد وزیر اعظم سے یہ پہلی ملاقات ہوگی جب مرکز نے جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کردی اور اسے دو مرکز کے زیر انتظام علاقوں میں تقسیم کردیا۔
یہ بھی پڑھیں:'مودی جی کہتے ہیں کہ کشمیر میں امن ہے'
ادھر 22 جون کو پیپلز الائنس فار گپکار ڈکلریشن کا اجلاس منعقد ہوا جس میں فیصلہ لیا گیا کہ وہ وزیراعظم کی جانب سے بلائی گئی میٹنگ میں شرکت کرے گے۔ گپکار ڈیکریشن کے ارکان کا کہنا تھا کہ انکا مؤقف واضح ہے کہ جموں و کشمیر کی ریاستی حیثیت ، اسکی سابقہ صورت میں بحال ہونی چاہئے۔ محبوبہ مفتی نے ڈیکریشن کے اجلاس کے بعد نامہ نگاروں کو بتایا کہ جموں و کشمیر کے سیاسی قیدیوں کو رہا کیا جانا چاہئے اور جنہیں رہا نہیں کیا جاسکتا انہیں کم از کم کشمیر کی جیلوں میں منتقل کیا جانا چاہئے۔ جموں و کشمیر کے متعدد علیحدگی پسند رہنما دلی، آگرہ اور دیگر جیلوں میں نظر بند ہیں۔