ایودھیا:آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ (اے آئی ایم پی ایل بی) 1992 کے بابری مسجد انہدام کیس میں سی بی آئی کی خصوصی عدالت کے تمام 32 ملزمان کو بری کیے جانے کے خلاف سپریم کورٹ میں جائے گا، بورڈ کے ایک عہدیدار نے بدھ کو یہ اطلاع دی ہے۔ سی بی آئی عدالت نے 30 ستمبر 2020 کو سابق نائب وزیر اعظم ایل کے اڈوانی سمیت کئی ملزمان کو اس کیس میں بری کر دیا تھا، جس کے بعد ایودھیا کے رہائشی حاجی محبوب اور سید اخلاق نے الہ آباد ہائی کورٹ کے سامنے نظر ثانی کی درخواست دائر کی۔ ہائی کورٹ کے دو ججوں کی بنچ نے رواں سال 9 نومبر کو نظرثانی کی درخواست مسترد کرتے ہوئے کہا کہ اپیل کنندگان کے پاس فیصلے کو چیلنج کرنے کا کوئی جواز نہیں ہے کیونکہ وہ اس کیس کے متاثرین میں سے نہیں ہیں۔ AIMPLB to move SC against acquittal of 32 accused in Babri Masjid demolition case
Babri Masjid Demolition Case بابری مسجد انہدام کیس میں بریت کے خلاف سپریم کورٹ جانے کا فیصلہ
آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے ایگزیکٹو رکن اور ترجمان سید قاسم رسول الیاس نے کہا کہ بورڈ نے 1992 کے بابری مسجد انہدام کیس میں بریت کے خلاف سپریم کورٹ جانے کا فیصلہ کیا ہے۔ Babri Masjid Demolition Case
مزید پڑھیں:۔Babri Masjid Demolition Anniversary بابری مسجد سانحہ: کب کیا ہوا-ایک نظر
اے آئی ایم پی ایل بی کے ایگزیکٹو رکن اور ترجمان سید قاسم رسول الیاس نے کہا کہ بورڈ نے اب بریت کے خلاف سپریم کورٹ جانے کا فیصلہ کیا ہے۔ انہوں نے ذرائع کو بتایا کہ ’’ہم یقینی طور پر سپریم کورٹ سے رجوع کرنے والے ہیں کیونکہ ایودھیا فیصلے میں سپریم کورٹ نے خود قبول کیا ہے کہ بابری مسجد کا انہدام ایک مجرمانہ فعل تھا‘‘۔ انہوں نے مزید کہا کہ ''ایودھیا پر تاریخی فیصلہ سنانے والے سپریم کورٹ کے پانچ ججوں کی بنچ نے بابری مسجد کے انہدام کو قانون کی حکمرانی کی سنگین خلاف ورزی قرار دیا تھا اور ملزمین ابھی تک قانون کی گرفت سے باہر ہیں''۔ انہوں نے کہا کہ اپیل گزار حاجی محبوب اور سید اخلاق سی بی آئی کے گواہ تھے اور ان کے گھروں پر 6 دسمبر 1992 کو ایک ہجوم نے حملہ کر کے جلا دیا تھا جسے ملزمان نے جمع کیا تھا۔انہوں نے کہا کہ محبوب اور اخلاق بابری مسجد کے قریب ہی رہتے تھے۔ محبوب اور اخلاق نے سی بی آئی کورٹ کے فیصلے کے خلاف 8 جنوری 2021 کو ہائی کورٹ کا رخ کیا تھا۔