دہلی:آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے جنرل سکریٹری مولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے اپنے پریس نوٹ میں کہا ہے کہ مرکزی اور بعض ریاستی حکومتوں کی طرف سے ملک میں اسرائیل کے طرز پر بلڈوزر کلچر کو جاری کرنا نہایت افسوسناک اور ملک کے لئے رسوا کن ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہندوستان کی شبیہ ایک ایسے جمہوری ملک کی رہی ہے، جس میں ہر شہری کو پُر امن احتجاج اور اظہار رائے کی آزادی دی گئی ہے لیکن گزشتہ کچھ عرصہ سے حکومت کا رویہ آمریت پسند ہوتا جا رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ کئی شہروں میں مسلمانوں اور دلتوں کے مکانات معمولی الزامات کی بنیاد پر زمین دوز کر دیے گئے، ایک شخص مدتوں محنت کر کے اور پسینہ بہا کر اپنا مکان بناتا ہے، مکان اس کے والدین، بچے، بچیاں اور بعض اوقات نابالغ بھائی بہن سبھوں کی اس میں رہائش ہوتی ہے، اور اس کو ایک مشترکہ ملکیت کا درجہ حاصل ہوتا ہے۔ اب اگر اس گھر کا ایک بالغ یا نابالغ لڑکا سچ مچ کہیں پتھراؤ کرنے میں شریک ہوگیا ہو تو کیا حکومت کے لئے یہ بات درست ہو سکتی ہے کہ وہ ایک ایسی سزا دے، جسے پورے خاندان کو بھگتنا پڑے، بوڑھے ماں باپ اور معصوم بچے سب اس سزا کی لپیٹ میں آجائیں۔
انہوں نے کہا کہ یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ حکومت کا یہ دعویٰ کہ مکان کی تعمیر کی منظوری حاصل نہ کرنے کی وجہ سے مکان کو گرایا گیا ہے، محض کھوکھلا دعویٰ اور جھوٹا بہانہ ہے، سوال یہ ہے کہ گھر کی تعمیر سے لے کر گھر گرانے کا واقعہ پیش آنے تک حکومت نے اس سلسلہ میں باز پُرس کیوں نہیں کی؟ حکومت کی ذمہ داری تھی کہ جس وقت تعمیر کا کام ہو رہا تھا، اسی وقت تعمیر کو روکا جاتا، پھر یہ بات بھی قابل غور ہے کہ ایک گلی میں فرض کیجئے پچاس مکانات ہیں، مسلمانوں کے بھی اور ہندوؤں کے بھی، اُن میں سے کسی نے بھی تعمیر کی اجازت حاصل نہیں کی تھی لیکن خاص طور پر اُن میں سے دو مکانات کو نشانہ بنا کر منہدم کیا جاتا ہے، جنہوں نے پولس کے دعویٰ کے مطابق پتھر بازی کی تھی، کیا یہ عمل قانون کے مطابق ہے؟