ایران:ایران میں 22 سالہ مہسا امینی کی ہلاکت Mahsa Amini Deathکے بعد آج منگل کو مسلسل 11واں دن ہے جب ملک میں حکومت مخالف مظاہرے ہو رہے ہیں۔ پولیس حراست میں امینی کی موت پر لوگوں میں غصہ ہے۔ اب اطلاعات ہیں کہ حدیدہ نجفی نامی 20 سالہ خاتون بھی سیکیورٹی فورسز کی گولیوں کی زد میں آکر جاں بحق ہوگئی ہے۔
یہ بھی پڑھیں:
ایران میں پولیس کی حراست میں مہسہ امینی کی ہلاکت کے بعد سے ملک بھر میں حجاب کے خلاف مظاہرے ہو رہے ہیں۔ خواتین سڑکوں پر آکر حجاب کے خلاف احتجاج کر رہی ہیں۔ یہ خواتین احتجاج کے طور پر اپنے بال کاٹ کر حکومت کو للکار رہی ہیں۔ ایسے ہی ایک مظاہرے میں حصہ لینے والی 20 سالہ خاتون ایرانی سکیورٹی فورسز کی گولیوں کا نشانہ بنی۔ اسے سیکورٹی فورسز نے چھ گولیاں ماریں جس کی وجہ سے وہ دم توڑ گیا۔ اس خاتون کا نام حدیث نجفی ہے جو ایران میں ٹک ٹاک اور انسٹاگرام کا مقبول چہرہ تھیں۔ اس سے قبل ہدیٰ نجفی کی ایک مخالف حجاب ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تھی، جس میں انہیں احتجاج میں شامل ہونے سے قبل اپنے بال باندھتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ اس ویڈیو کے وائرل ہونے کے بعد حدیث کو 'پونی ٹیل گرل' کے نام سے جانا جانے لگا۔
یہ بھی پڑھیں:
یہ بھی پڑھیں: Iranian Woman Dies ایران کی اخلاقی پولیس کی حراست میں بائیس سالہ خاتون مہسا امینی کی موت
اطلاعات کے مطابق نجفی اتوار کی رات کرج شہر میں ایرانی سیکورٹی فورسز کی فائرنگ میں ہلاک ہوئی۔ سیکورٹی فورسز نے اس کے چہرے، گردن اور سینے پر چھ گولیاں ماریں۔ انہیں اسپتال میں داخل کرایا گیا، جہاں انہیں مردہ قرار دیا گیا۔ Iranian Woman Dies۔ نجفی کے انتقال کی خبر کے بعد سے سوشل میڈیا پر انہیں خراج عقیدت پیش کیا جا رہا ہے۔ ایک شخص نے ٹویٹ کر کے کہا، حکومت ایران کا ایک اور شکار حدیث نجفی ہے۔ ایک اور شخص نے ٹویٹ کیا، اس کا نام حدیث نجفی تھا، جو 20 سال کی ایک دلیر اور بہادر لڑکی ہے۔ کرج شہر میں سیکورٹی فورسز نے اس پر چھ گولیاں چلائیں۔ وہ صرف 20 سال کی تھی۔
احتجاجیوں پر حکومتِ ایران کی سختی
حکومت کی سختی کے باوجود حجاب کے خلاف احتجاج نہ رکا، کئی شہروں میں پرتشدد جھڑپیں جاری ہیں۔ ہزاروں خواتین سڑکوں پر نکل کر حجاب کے خلاف احتجاج کر رہی ہیں۔ اطلاعات کے مطابق ان مظاہروں میں اب تک مبینہ 40 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ ملک کے کئی شہروں میں مظاہروں نے پرتشدد شکل اختیار کر لی ہے۔ خواتین اور شہری حقوق کی تنظیموں میں حکومتی قوانین پر غصہ پایا جاتا ہے جس کی وجہ سے ایران میں انٹرنیٹ پر بھی پابندی لگا دی گئی۔ صدر ابراہیم رئیسی کی حکومت کی جانب سے سخت کارروائی کے انتباہ کے باوجود عوام کا احتجاج تھمنے کا نام نہیں لے رہا۔ عدلیہ کے سربراہ محسنی نے اتوار کو کہا کہ فسادات کو ہوا دینے والوں کے خلاف سخت کارروائی کا وقت آ گیا ہے۔
ایرانی حکام کی جانب سے انٹرنیٹ پر پابندی
ان ہی حالات کے مدنظر ایرانی حکام نے ہفتے کے روز 22 سالہ مہسا امینی کی ہلاکت کے بعد شدید مظاہروں کی وجہ سے ملک میں انٹرنیٹ تک رسائی کو محدود کرنے کا اعلان کیا۔ ذرائع کے مطابق، انٹرنیٹ کی نگرانی کرنے والی ایجنسی نیٹ بلاکس نے جمعہ کو کہا کہ احتجاج جاری رہنے کے باعث ایرانیوں کو موبائل انٹرنیٹ کنیکٹیویٹی کا سامنا ہے۔ واچ ڈاگ گروپ نے ہفتے کے شروع میں کہا تھا کہ ایران میں 2019 کے بعد سے انٹرنیٹ کی شدید ترین پابندیوں کا سامنا ہے، مظاہروں کے آغاز کے بعد سے ملک میں موبائل نیٹ ورکس بڑے پیمانے پر بند اور سوشل نیٹ ورکس انسٹاگرام اور واٹس ایپ پر پابندی ہے۔ Iran Restricts Internet
ایران کے وزیر مواصلات احمد واحدی Iran Minister of Communications Ahmed Wahidi نے کہا کہ جب تک فسادات ختم نہیں ہوتے، انٹرنیٹ کی خدمات معطل رہیں گی۔ سوشل میڈیا کے ذریعے پھیلنے والے فسادات کو روکنے کے لیے، ہم انٹرنیٹ پر پابندیاں لگانے کے پابند ہیں۔ واحدی کے تبصرے اس وقت سامنے آئے جب سوشل میڈیا پر ویڈیوز میں بے پردگی کے مناظر دکھائے گئے، جن میں خواتین اپنے سروں سے اسکارف اتار کر جلا رہی تھیں اور مظاہرین عورت، زندگی، آزادی جیسے نعرے لگا رہے تھے۔ Iran Restricts Internet
خواتین نے حجاب جلادیے اور بال کاٹ دیے
خواتین کی جانب سے حجاب جلانے اور بال کٹوانے کی تصاویر پوری دنیا میں سوشل میڈیا پر چھائی ہوئی ہیں۔ کئی مقامات پر مردوں نے بھی ان مظاہروں میں شرکت کی اور اٹلی کے احتجاجی گانے بیلا چاؤ کا فارسی ورژن گا کر حکومت کے خلاف احتجاج کیا۔ پولیس کی حراست میں مھسا امینی کی ہلاکت پر ایران میں ابل پڑا، ایران میں ان مظاہروں کی وجہ 22 سالہ مہسا امینی ہے۔ مھسا امینی اب اس دنیا میں نہیں رہیں۔ ان کا انتقال 16 ستمبر کو ہوا۔ مہسا امینی کو پولیس نے 13 ستمبر کو گرفتار کیا تھا۔ الزام لگایا گیا کہ امینی تہران میں صحیح طریقے سے حجاب نہیں پہنتی تھیں۔ جبکہ ایران میں حجاب پہننا لازمی ہے۔ امینی کو گرفتار کر کے تھانے لے جایا گیا۔ وہاں ان کی طبیعت خراب ہونے پر امینی کو اسپتال لے جایا گیا۔ تین دن بعد خبر آئی کہ امینی کا انتقال ہو گیا ہے۔
ایرانی پولیس پر قتل کا الزام
اہل خانہ کا الزام ہے کہ پولیس نے امینی کو بری طرح مارا پیٹا۔ جس کی وجہ سے وہ کوما میں چلی گئی اور وہ اسپتال میں دم توڑ گئی۔ امینی کی موت کے بعد سے ایران میں مظاہرے ہو رہے ہیں۔ حکومت کے خلاف نعرے لگائے جا رہے ہیں۔ خواتین اپنے بال خود کاٹ کر احتجاج کر رہی ہیں۔ سیکورٹی فورسز کے سامنے اڑتے حجاب۔ آپ کو بتاتے چلیں کہ 22 سالہ مھسا امینی کی موت کے بعد سے پیر کو مسلسل 11واں دن ہے، جب ملک میں حکومت مخالف مظاہرے ہو رہے ہیں۔
ایران پر بین الاقوامی دباؤ
ایمنسٹی انٹرنیشنل نے جمعہ کو کہا کہ چار بچوں سمیت کم از کم 30 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ اسلامی جمہوریہ ایران کے سرکاری میڈیا کے مطابق 35 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ حکام کو امید ہے کہ انٹرنیٹ پر پابندی لگا کر وہ مظاہروں پر قابو پالیں گے۔ جمعہ کو سرکاری نشریاتی ادارے IRIB سے بات کرتے ہوئے، ایران کے وزیر مواصلات احمد واحدی نے کہا، "جب تک فسادات ختم نہیں ہوتے، انٹرنیٹ کی خدمات معطل رہیں گی۔ سوشل میڈیا کے ذریعے پھیلنے والے فسادات کو روکنے کے لیے، ہم انٹرنیٹ پر پابندیاں لگانے کے پابند ہیں۔ واحدی کے تبصرے اس وقت سامنے آئے جب سوشل میڈیا پر ویڈیوز میں عوامی توہین کے مناظر دکھائے گئے، جن میں خواتین اپنے سروں سے اسکارف اتار کر جلا رہی تھیں اور مظاہرین عورت، زندگی، آزادی جیسے نعرے لگا رہے تھے۔