افغان خواتین نے جمعہ کو کابل میں صدارتی محل کے باہر احتجاج کیا اور ملک کی نئی طالبان قیادت پر زور دیا کہ وہ خواتین کے حقوق کو برقرار رکھے۔
خواتین مظاہرین نے پلے کارڈ اٹھا رکھے تھے اور نعرے لگائے کہ ان کی آواز سنی جائے۔ ایک پلے کارڈ پر لکھا تھا "ایک ایسا معاشرہ جس میں خواتین فعال نہیں ہیں وہ ایک مردہ معاشرہ ہے"۔
کابل میں صدارتی محل کے باہر خواتین کا احتجاج واضح رہے کہ یہ احتجاج ایک دن بعد کیا جب صوبہ ہرات میں خواتین کے ایک گروپ نے حکومت میں ان کی شرکت اور تعلیم اور کام کے حقوق کے لیے ریلی نکالی تھیں۔
طالبان رہنماؤں نے حالیہ مہینوں میں ایک زیادہ اعتدال پسند تصویر پیش کرنے کی کوشش کی ہے، جس میں خواتین اور لڑکیوں کو اسکول جانے کی اجازت دی گئی ہے اور اور اسلامی قانون کے مطابق کام کرنے کی بھی اجازت دی گئی ہے۔
گوگل نے سابقہ افغان حکومت کے ای میل اکاؤنٹس کو عارضی طور پر بند کیا
طالبان کے ترجمان سہیل شاہین نے جمعہ کی دیر رات ایک نیوز چینل سے کہا ’’خواتین کے حقوق کے بارے میں کوئی مسئلہ نہیں ہوگا، ان کی تعلیم اور کام کے بارے میں بھی کوئی مسئلہ نہیں ہوگا، ہماری ثقافت یہ ہے کہ خواتین حجاب کے ساتھ تعلیم کے حصول اور روزگار کے لیے کام کر سکتی ہیں‘‘۔
انہوں نے مزید کہا کہ امریکہ نے افغانستان سے خواتین کو بغیر حجاب کے کام کرنے اور تعلیم حاصل کرنے کے حقوق کو یقینی بنانے کی درخواست کی تھی، جو افغان ثقافت کو تبدیل کرنے کی کوشش تھی۔ تنظیم کے نقطہ نظر سے یہ درخواست ناقابل قبول ہے۔