جب لوگ ہم تک نہیں پہنچ سکتے تو ہمیں ان تک پہنچنا چاہئے۔ یہ سنہرے الفاظ ٹھیک ایک ماہ قبل جسٹس این وی رمنا نے دہلی میں ایک افتتاحی تقریب کے دوران کہے تھے جہاں انہوں نے لوگوں کو مفت قانونی امداد فراہم کرنے جیسے موضوع پر بات کی۔
بھارت کے 48 ویں چیف جسٹس کی حیثیت سے حلف لینے والے این وی رمنا آندھرا پردیش سے تعلق رکھنے والے دوسرے شخص ہیں، جو ملک کے سب سے اعلی قانونی عہدے پر فائز ہوئے ہیں، اس سے پہلے آندھرا پردیش کے جسٹس کوکا سبہ راؤ پانچ دہائیوں تک چیف جسٹس کے عہدے پر فائز رہے تھے۔
سنہ 2019 میں یوم دستور کی تقریر کرتے ہوئے جسٹس رمنا نے کہا تھا کہ "ہمیں نئے فیصلے کرنے، نئے طریقے تیار کرنے، نئی حکمت عملیوں کو جدید بنانے اور آئینی مقاصد کے حصول کے لئے نئی حکمت عملی تیار کرنا ہوگا اور بڑے پیمانے پر یہ مانا بھی جارہا ہے کہ رمنا چیف جسٹس آف انڈیا کی حیثیت سے اپنے 16 ماہ کے مدت کار میں اپنی کہی ہوئی باتوں پر عمل کریں گے۔
تقریباً پانچ سال پہلے جسٹس ٹی ایس ٹھاکر نے افسوس ظاہر کرتے ہوئے کہا تھا کہ عدلیہ بھی ساکھ کے بحران سے گزر رہی ہے۔ حالات میں بہتری آنے کے بجائے مزید خرابیاں پیدا ہوتی جارہی ہیں۔ چیف جسٹس ایس اے بوبڈے کے مدت کار میں اپیکس کورٹ میں پانچ پانچ خالی اسامیوں میں سے کوئی بھی پُر نہیں ہوئی ہے۔
اس سال مزید پانچ اسامیاں اس فہرست میں شامل ہوجائیں گی۔ جسٹس رمنا نے کالجیم میں اتفاق رائے کے حصول کا نہایت ہی اہم کام انجام دیا ہے جس سے نہ صرف لاقانونیت کا بوجھ کم ہوگا بلکہ اب خالی اسامیاں بھی آسانی سے پُر کی جاسکیں گی۔
چونکہ ملک بھر میں زیر التواء مقدمات کی تعداد 4.4 کروڑ سے عبور کرچکی ہیں، سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے آئین ہند کے آرٹیکل 224 اے کے تحت ایڈہاک ججوں کی تقرری کے لئے ہری جھنڈی دکھا دی ہے جس کے بعد ان تقرریوں کی ذمہ داری بھی اب جسٹس رمنا کے کندھوں پر آگئی ہے۔
عدالتی نظام کو ترتیب دینے کے ساتھ جسٹس رمنا کو انصاف کے رتھ کو آگے تو بڑھانا ہی ہوگا، ساتھ میں 'ماسٹر آف روسٹر' کے عہدے کو بلند بھی رکھنا پڑے گا۔
اٹارنی جنرل وینوگوپال کے مطابق چیف جسٹس آف انڈیا کا مدت کار کم از کم تین سال کا عرصہ ہونا چاہیے۔ بھارت کے چیف جسٹس کو ایگزیکٹو اور پارلیمان کے تعاون سے متحرک انداز میں کام کرنا چاہئے تاکہ آئین ہند کے تصور کے مطابق تمام شہریوں کے لیے انصاف کو یقینی بنایا جا سکے۔ ایسے میں سابق صدر جمہوریہ اور بھارت رتن پرنب مکھرجی کی کہی ہوئی بات یاد آتی ہے جنہوں نے یہ رائے دی تھی کہ اگر بھارت کے وزیراعظم اور چیف جسٹس آف انڈیا وقتاً فوقتاً ملاقات کر لیں تو بہت سارے مسائل حل ہوسکتے ہیں۔
عدلیہ کو بنیادی ڈھانچے کی ترقی کے لئے فنڈ بحران کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے کیونکہ اس پر ہونے والے تمام اخراجات کو غیر منصوبہ بندی کے اخراجات کے طور پر سمجھا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ خود جسٹس رمنا نے بھی حال ہی میں اس بات کی نشاندہی کی تھی کہ ملک میں ناقص معیار کی دی جانے والی قانونی تعلیم فکر مندی کی ایک اہم اور بڑی وجہ ہے۔
ریاستی جوڈیشل اکیڈمی کے چیئرمین کی حیثیت سے بھی جسٹس رمنا نے جوڈیشل افسران کی تربیت میں بہتری لانے کے لئے کافی جدوجہد کی تھی۔ نیشنل لیگل سروسز اتھارٹی کے چیئرمین کے عہدے پر فائز رہ کر وہ بڑے پیمانے پر لوک عدالتوں کا انعقاد کر کے پذیرائی حاصل کر چکے ہیں۔ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن نے رمنا کے چیف جسٹس کے عہدے پر فائز ہونے کے بعد انہیں 'امید کی کرن' بتائی تھی۔
ایسے وقت میں جب ملک کا صحت کا نظام کووڈ کے اثر سے ٹوٹ رہا ہے، وہیں دیگر ادارے بھی سیاسی جگل بندی میں لگے ہوئے ہیں، ایسے میں لوگوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے صرف سپریم کورٹ ہی رہ گیا ہے۔ عدلیہ کے اقدار اور عزت کو برقرار رکھنے میں جسٹس رمنا کا کردار نہایت ہی اہم ثابت ہوگا۔